Inquilab Logo Happiest Places to Work

سہگل نے مختصر سی زندگی میں ہی کئی عمدہ گیت گائے

Updated: April 17, 2025, 9:37 PM IST | Mumbai

شہنشاہ موسیقی کےایل سہگل نے ۱۵؍سال کےعرصےمیں ۱۸۵؍ گیتوں کیلئے اپنی آواز دی اور ۳۶؍فلموں میں اداکاری کے جوہربھی دکھائے اورجنوری ۱۹۴۷ءکواس دنیا سے کوچ کرگئے۔سہگل ۱۹۳۰ءکی دہائی میں فلمی دنیا کے نقشے پر نظر آئے جب نیوتھیٹرکلکتہ کے مالک بی این سرکار نےسامعین کے سامنے پیش کیا اور انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔

The great singer and brilliant actor KL Sehgal. Photo: INN
عظیم گلوکار اور شاندار اداکار کے ایل سہگل۔ تصویر: آئی این این

شہنشاہ موسیقی کےایل سہگل نے ۱۵؍سال کےعرصےمیں ۱۸۵؍ گیتوں کیلئے اپنی آواز دی اور ۳۶؍فلموں میں اداکاری کے جوہربھی دکھائے اورجنوری ۱۹۴۷ءکواس دنیا سے کوچ کرگئے۔سہگل ۱۹۳۰ءکی دہائی میں فلمی دنیا کے نقشے پر نظر آئے جب نیوتھیٹرکلکتہ کے مالک بی این سرکار نےسامعین کے سامنے پیش کیا اور انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ان کا جنم ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۴ءکوہواتھا۔ موسیقی اور گائیکی سہگل کی رگ رگ میں رچی  بسی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا نہ ہی انہوںنے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیںسکتےتھے، اس لیے کہ اس زمانے میںموسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں اور سہگل ایک آزاد انسان تھے جن کے لئےدرباروں کے آداب سےمطابقت پیدا کرنا یقیناً مشکل تھا۔
 چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹربنانے والی کمپنی میں ۸۰؍روپے ماہانہ کی سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات  نیو تھیٹر کےبانی بی این سرکار سے ہوگئی۔ سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیوتھیٹرمیںسہگل کو  گلوکارکے طور پر۲۰۰؍روپے ماہانہ پر ملازمت پر رکھ لیا۔

یہ بھی پڑھئے: ایپل کا ٹیرف سے بچنے کا انوکھا منصوبہ

نیو تھیٹرمیںاس زمانے میں رائے چند بورال، تامیر برن،کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار  موجود تھے جن میں بورال سب سے سینئرتھےاور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں  نمایاں کردار ادا کیا ۔نیو تھیٹرکی فلموںسےہی سہگل کو ہندوستان میں شہرت  حاصل ہوئی۔نیو تھیٹرکے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوںنےوہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں زندہ جاویدبنادیا۔مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نیئہرچھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔نیو تھیٹرنےابتدا میں سہگل کے ساتھ ۳؍فلمیں بنائیںجومالی اعتبارسےناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ ۱۹۳۳ءمیںبھی نیو تھیٹر نے۳؍فلمیں ریلیز کیں جن میںپورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیںجس سےسہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔۱۹۳۴ءمیںنیو تھیٹرنےمزید۳؍فلمیں ریلیز کیںجن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاںسےانہوں نے پیچھے مڑ کر نہیںدیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی ۱۹۳۵ءمیںدیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔
سہگل نے فلمی نغموںکےعلاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نےبڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کوکچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لیے نہیںبلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لیے گا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختربھی جو غزل گائکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سہگل کی بڑی مداح تھیں۔سہگل۱۸؍جنوری ۱۹۴۷ءکوجلندھر میں اس سرائےفانی سے کوچ کرگئے۔ انہیں جگر کا کوئی عارضہ ہو گیا تھا۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفرکومختصر کر دیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK