جب بھی کسی فلمی گیت میں شکیل بدایونی کا نام بطور گیت کار شامل ہوتا ہے تو سننے والوں کو امید ہی نہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ گیت ضرور اچھا اور دل کو چھو لینے والا ہوگا۔
EPAPER
Updated: August 03, 2024, 10:12 AM IST | Agency | Mumbai
جب بھی کسی فلمی گیت میں شکیل بدایونی کا نام بطور گیت کار شامل ہوتا ہے تو سننے والوں کو امید ہی نہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ گیت ضرور اچھا اور دل کو چھو لینے والا ہوگا۔
جب بھی کسی فلمی گیت میں شکیل بدایونی کا نام بطور گیت کار شامل ہوتا ہے تو سننے والوں کو امید ہی نہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ گیت ضرور اچھا اور دل کو چھو لینے والا ہوگا۔
شکیل احمد، ۳؍اگست۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیداہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانےسےتھا۔ والدجمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کےبعد اعلیٰ تعلیم کے لیےشکیل ۱۹۳۲ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ شکیل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔ شکیل احمد علی گڑھ سےبی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ۱۹۴۲ءمیں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً ۱۹۴۶ءتک مقیم رہے۔ اس کےبعدوہ فروری ۱۹۴۶ء میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی آگئے جہاں ان کی ملاقات مشہورفلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کےکلام کی عزت افزائی کی گئی۔ اے آر کاردار کے اصرارپرشکیل نےمستقل طور پر بمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے ۱۹۴۰ءمیں سلمیٰ سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں اوران کے ساتھ بچپن ہی سےجوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔
شکیل نےسوسےزیادہ فلموں کے اردو، ہندی اورپوربی زبانوں میں گیت لکھےعلی گڑھ میں قیام کے دوران جگرمراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئےاور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے، جو بہت زیادہ مقبول ہوئےجس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔ شکیل بدایونی نے دلاری (۱۹۴۹ء)، دیدار (۱۹۵۱ء)، مدر انڈیا(۱۹۵۷ء)، چودہویں کا چاند (۱۹۶۰ء)، مغلِ اعظم (۱۹۶۰ء)، گنگا جمنا(۱۹۶۱ء) صاحب بی بی اور غلام (۱۹۶۲ء)، میرے محبوب (۱۹۶۳ء)دو بدن (۱۹۶۶ء) جیسی سپرہٹ فلموں میں اپنے نغموں سے دھوم مچا دی۔
شکیل بدایوں کو(۱۹۶۱ء)میں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کاچاند کے نغمے’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ کیلئےفلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ءمیں فلم گھرانہ کےگانےحسن والے ترا جواب نہیں کیلئے پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۶۳ءمیں سسپنس سے بھرپور فلم بیس سال بعد کےنغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کیلئے انہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔
فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غم فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم ۱۹۶۹ءمیں لکھی گئی آپ بیتی۲۰۱۴ءمیں شائع ہوئی۔ شکیل بدایوں کا محض۵۳؍برس کی عمر میں۲۰؍اپریل ۱۹۷۱ء کوممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسری بہت سی مشہور شخصیات کی طرح ۲۰۱۰ء میں ان کی قبر کانام و نشان تک مٹا دیا۔