مشہورشاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔
EPAPER
Updated: August 03, 2023, 12:59 PM IST | Mumbai
مشہورشاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔
مشہورشاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔
میں شکیل دل کا ہوں ترجماںکہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں
شکیل احمد،۳؍اگست۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوںقصبےمیں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانےسےتھا۔والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجدمیں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو،فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوںسےڈگری حاصل کرنے کےبعد اعلیٰ تعلیم کیلئےشکیل ۱۹۳۲ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔شکیل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انٹر کالج ، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔
شکیل احمد علی گڑھ سےبی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد۱۹۴۲ءمیںدہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔شکیل دہلی میںتقریباً ۱۹۴۶ءتک مقیم رہے۔اس کےبعدوہ فروری ۱۹۴۶ء میں ایک مشاعرےکے سلسلے میں بمبئی آئے جہاں ان کی ملاقات مشہورفلم ساز اے آر کاردارسےہوئی۔ اس دوران انہوں نےمختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔
اے آر کاردار کے اصرارپرشکیل نےمستقل طور پر بمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنالیا۔ شکیل بدایونی نےنوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر۲۰۰؍سے زائد نغمے لکھے۔ ان کے گیتوںکومحمدرفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔
شکیل بدایوں کو۱۹۶۱ءمیں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کا چاند کے نغمے ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ کیلئےفلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد۱۹۶۲ءمیںفلم گھرانہ کےگانےحسن والے تیرا جواب نہیں کیلئے پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۶۳ءمیں سسپینس سے بھرپور فلم بیس سال بعد کے نغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کے لئے انہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔
شکیل کو شاعری کے علاوہ بیڈمنٹن کھیلنا بہت پسندتھا۔وہ اپنے دوست احباب کےساتھ جب بھی پکنک پرجاتےتو وہ بیڈمنٹن کے ساتھ ساتھ پتنگ بازی بھی کرتےتھے۔ نوشاد، محمد رفیع اورکبھی کبھار جانی واکربھی ان کے ساتھ پتنگ بازی کے مقابلے میںحصہ لیا کرتے تھے۔فلمی گیتوںکے علاوہ شاعری کے ۵؍ مجموعے غم فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میںہی شائع ہو گئی تھی، تاہم ۱۹۶۹ءمیں لکھی گئی آپ بیتی ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی۔
شکیل بدایونی کامحض۵۳؍برس کی عمر میں ۲۰؍اپریل۱۹۷۱ءکوممبئی میں انتقال ہوگیااور وہ یہیں دفن ہوئے۔مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسری بہت سی مشہور شخصیات کی طرح ۲۰۱۰ء میںان کی قبر کانام و نشان تک مٹا دیا۔