شکیل احمد، ۳؍اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانےسےتھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔
EPAPER
Updated: April 21, 2025, 11:58 AM IST | Agency | Mumbai
شکیل احمد، ۳؍اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانےسےتھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔
مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کااپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں
شکیل احمد، ۳؍اگست ۱۹۱۶ءکواتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانےسےتھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔
اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیےشکیل ۱۹۳۲ءمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ شکیل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیاتو انہوں نے انٹر کالج، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔ شکیل احمد علی گڑھ سےبی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کےبعد ۱۹۴۲ءمیں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً ۱۹۴۶ءتک مقیم رہے۔ اس کےبعدوہ فروری ۱۹۴۶ءمیں ایک مشاعرے کے سلسلےمیں بمبئی آئے جہاں ان کی ملاقات مشہورفلم سازاے آر کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی۔ اے آر کاردار کے اصرارپر شکیل نےمستقل طورپربمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے ۱۹۴۰ءمیں سلمیٰ سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں اوران کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔
علی گڑھ میں قیام کےدوران جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سےفلمی دنیا میں داخل ہوئےاور سو سے زائد فلموں کے لیے اردو، ہندی اورپوربی زبانوں میں گیت لکھے، جو بہت زیادہ مقبول ہوئےجس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔
نوشادکےکہنےپرشکیل نے ’ہم درد کا افسانہ دنیا کوسنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے‘ گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراً کاردار صاحب کی ’درد‘ کے لیے سائن کر لیا گیا۔ ۱۹۴۷ءمیں اپنی پہلی ہی فلم ’درد‘ کے گیت ’افسانہ لکھ رہی ہوں ‘کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔
شکیل بدایونی نےنوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر ۲۰۰؍ سے زائد نغمے لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشابھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔
شکیل بدایوں کو ۱۹۶۱ءمیں ریلیز ہوئی فلم چودھویں کا چاندکے نغمے ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ کیلئےفلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ءمیں فلم گھرانہ کےگانےحسن والے تیرا جواب نہیں کے لئے پھر بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۶۳ءمیں سسپینس سے بھرپور فلم بیس سال بعدکےنغمہ کہیں دیپ جلے کہیں دل کیلئے انہیں ایک مرتبہ پھر بہترین نغمہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا۔ شکیل بدایوں کامحض۵۳؍برس کی عمرمیں ۲۰؍ اپریل ۱۹۷۱ءکو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور یہیں دفن ہوئے۔