ہندوستانی فلموں کے علاوہ انہوں نے اسماعیل مرچنٹ کی کمپنی ’مرچنٹ آئیوری پروڈکشن‘ کی فلموں،’ہائوس ہولڈر، شیکسپیئر والا، بمبئی ٹاکیز، ہیٹ اینڈ ڈسٹ، دی ڈیسیور اور سائیڈ اسٹریٹ‘ کے علاوہ ’پریٹی پول، سدھارتھ، سمّی اینڈ روزی، گیٹ لائیڈ اورمحافظ‘ جیسی فلموں میں کام کیا ہے۔
ششی کپور۔ تصویر : آئی این این
ششی کپور ۱۸؍مارچ ۱۹۳۸ء کو کولکاتا میں پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام بلبیر راج کپور رکھا گیا مگر بچپن ہی سے گھر کے تمام افراد اُنہیں ششی راج کہہ کر پکارتے تھے۔ اُن دنوں کلکتہ میں پرتھوی راج کپور نیو تھیٹرز سے وابستہ تھے۔ وہ دراصل ۱۹۳۳ء سے وہاں کام کر رہے تھے اور تب تک تقریباً ۱۰؍ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے تھے۔ اس کے علاوہ نیو تھیٹرز کے باہر کی بھی ۶؍ فلموں میں وہ کام کر چکے تھے۔ ششی راج کی پیدائش کے بعد ۱۹۳۹ء میں پرتھوی راج کپور، کلکتہ سے واپس بمبئی آگئے اور ایک ہزار روپے ماہوار پر سیٹھ چندو لال شاہ کے رنجیت اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے۔
پرتھوی راج کپور کے تیسرے بیٹے ششی کپور بچپن ہی سے اپنے بڑے بھائیوں رنبیر راج کپور اور شمی کپور کی طرح اداکاری کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ تھیٹر اور فلم کے تئیں ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ جب اُن کی عمر صرف چھ برس کی تھی تو وہ اپنے والدپرتھوی راج کپور کی ہدایتکاری میں ڈراموں میں کام کرنے لگے تھے۔ اس طرح۱۹۴۴ء میں انہوں نےاپنے والد پرتھوی راج کپور کے تھیٹر کے ڈرامے ’شکنتلا‘ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی پرتھوی تھیٹر کے ساتھ دوسرے شہروں میں بھی جانے لگے تھے۔
چائلڈ آرٹسٹ کے بطور ششی راج نے ۱۹۴۸ء میں فلم ’آگ‘ اور ۱۹۵۱ء میں فلم ’آوارہ‘ میں اپنے بڑے بھائی راج کپور کے بچپن کے کردار ادا کئے۔ اسی طرح فلم ’سنگرام‘ میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار بھی ششی راج نے ادا کیا تھا۔ ۱۹۴۸ء سے۱۹۵۴ء تک انہوں نےچار ہندی فیچر فلموں میں کام کیا۔ تھوڑا بڑے ہونے پر ششی کپور کو فلم ’پوسٹ باکس ۹۹۹‘ میں معاون ہدایتکار کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ رویندر دیو کے معاون کے طور پر فلم’گیسٹ ہائوس‘ (۱۹۵۹ء) میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد فلم ’دولہا دُلہن‘ اور’’شری مان ستیہ وادی‘ میں بڑے بھائی راج کپور کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا۔
ششی کپور نے ہائی اسکول تک کی تعلیم ڈان باسکو ہائی اسکول، ماٹونگا، ممبئی میں حاصل کی۔ اسکول کے ڈراموں میں ششی کپور اداکاری کرنا چاہتے تھے مگر وہاں صرف عیسائی بچوں کو ہی ڈراموں میں کام کرنے کی اجازت تھی۔ میٹرک میں فیل ہو جانے کی وجہ سے تعلیم سے اُن کا دل اُچاٹ ہو گیا اور وہ اپنے والد کے پرتھوی تھیٹر میں اسسٹنٹ منیجر کے طور پر پچیس روپے ماہانہ پر کام کرنے لگے اور ساتھ میں وہاں ہونے والے ڈراموں میں اداکاری بھی کرتے تھے۔
ششی کپور کو سب سے بڑا موقع یش چوپڑہ کی ہدایت میں بننے والی فلم ’دھرم پُتر‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کیلئے ملا۔ یہ فلم ۱۹۶۱ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً ۱۱۶؍فلموں میں مرکزی کردار ادا کئے، جن میں ۱۶؍ فلمیں ایسی تھیں جن میں وہ تنہا مرکزی کردار میں تھے جبکہ ۵۵؍ فلمیں ملٹی اسٹار کاسٹ والی تھیں۔ اسی طرح ۲۱؍فلموں میں معاون اداکار کے طور پر اور ۷؍فلموں میں گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر بھی ششی کپور نے کام کیا۔ غرض یہ کہ ۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی میں وہ ہندوستانی فلموں کے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک رہے۔ ششی کپور نے۱۹۶۳ء سے انگریزی فلموں میں بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’دی ہائوس ہولڈر‘ اور ’شیکسپیئر والا‘ وغیرہ میں انہوں نے اداکاری کی۔ ششی کپور پہلے ہندوستانی اداکار ہیں جنہوں نے عالمی سنیما میں اپنا نام درج کرایا۔
اس دوران ششی کپور نے امریکہ کے ساتھ ہی انگلینڈ کی بھی کچھ فلموں میں کام کیا۔ اسماعیل مرچنٹ کے پروڈکشن ’’مرچنٹ آئیوری پروڈکشن‘‘ کی فلموں، ’’ہائوس ہولڈر، شیکسپیئر والا، بمبئی ٹاکیز، ہیٹ اینڈ ڈسٹ، دی ڈیسیور اور سائیڈ اسٹریٹ‘‘ وغیرہ کے علاوہ ’’پریٹی پول، سدھارتھ، سمّی اینڈ روزی، گیٹ لائیڈ اورمحافظ‘‘ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ اسی طرح ’’جیمس آئیوری اسماعیل مرچینٹ‘‘ کی انگریزی ہندی فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے ششی کپور کو انگلش کپور کا لقب بھی دے دیا گیا تھا۔
اداکارہ نندہ ایک ایسی اداکارہ تھیں جنہوں نے ششی کپور کے ساتھ۸؍ فلموں میں ہیروئن کے کردار ادا کئے۔ اُن کا خیال تھا کہ ششی کپور کے ساتھ اُن کی ٹیوننگ زیادہ بہتر رزلٹ دیتی ہے۔ فلم ’چار دیواری‘ (۱۹۶۱ء) اور فلم ’ مہندی لگی میرے ہاتھ‘ (۱۹۶۲ء) اُن کی پہلی ۲؍ رومانی فلمیں ہیں۔ اس کے بعد یہ جوڑی مشہور ہوگئی اور پھر’ ’ محبت اس کو کہتے ہیں (۱۹۶۵ء)، جب جب پھول کھلے (۱۹۶۵ء)، نیند ہماری خواب تمہارے (۱۹۶۶ء)، راجہ صاحب (۱۹۶۹ء) اورروٹھا نہ کرو (۱۹۷۰ء)‘‘ میں اِن دونوں کی رومانٹک جوڑی والی کامیاب فلمیں پردۂ سیمیں کی زینت بنیں۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے پسندیدہ اداکار بن گئے تھے۔
ایک کامیاب اداکار کے طور پر ششی کپور کی پہچان فلم ’جب جب پھول کھلے‘ سے قائم ہو گئی تھی۔ ۱۹۶۵ء میں ریلیز ہوئی اس فلم کے فلمساز پی ایم سیٹھیا اور ایچ ایم سیٹھیا تھے اور ہدایتکار سورج پرکاش تھے۔ یہ فلم کشمیر کے پس منظر پر فلمائی گئی تھی جس میں بے حد خوبصورت مناظر تھے۔ کلیان جی آنند جی کی خوبصورت دُھنوں پر آنند بخشی کے لکھے بہترین نغمے تھے اور پیار کے تکون کی ایک کامیاب کہانی تھی۔ نندہ فلم کی ہیروئن تھیں اور محمدرفیع کے گائے گیت ’’یہاں میں اجنبی ہوں، پیار پر اُن کو غصہ آیا، نا نا کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے، پردیسیوں سے نہ انکھیاں ملانا اورایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘‘ جیسے نغموں نے دھوم مچا دی تھی۔ اس فلم میں ششی کپورنے ایک کشمیری شکارے والے راجو کا کردار کیا تھا جو ایک امیر خاندان کی سیّاح لڑکی نندہ سے پیار کرنے لگتا ہے۔
۷۰ء اور۸۰ء کی دہائیوں میں ششی کپور نے اس وقت کی صف اوّل کی کئی اداکارائوں کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیے جن میں میناکماری، آشا پاریکھ، راکھی، شرمیلا ٹیگور، زینت امان، ہیما مالنی، پروین بابی اور موسمی چٹرجی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ راکھی کے ساتھ پہلی فلم ’شرمیلی‘ کی کامیابی کے بعد راکھی نے کئی فلموں میں ششی کپور کے ساتھ کام کیا۔ جیسے ’’جانور اور انسان (۱۹۷۲ء) اور ’’زمین آسمان‘‘ (۱۹۸۴ء)۔ اسی طرح ’’وقت‘‘ (۱۹۶۵ء) میں شرمیلا ٹیگور کے ساتھ کامیاب جوڑی بنانے کے بعد ’’آمنے سامنے‘‘ (۱۹۶۷ء)، ’’سہانا سفر‘‘ (۱۹۷۰ء)، ’’پتنگا‘‘ (۱۹۷۱ء)، ’’آگلے لگ جا‘‘ (۱۹۷۳ء)، ’’وچن‘‘ (۱۹۷۴ء)، ’’پاپ اور پنیہ‘‘ (۱۹۷۴ء) اور ’’سوامی‘‘ (۱۹۸۶ء) میں ششی کپور کے ساتھ کام کیا۔ اداکارہ زینت امان کے ساتھ فلم ’’چوری میرا کام‘‘ (۱۹۷۵ء)، ’’دیوانگی‘‘ (۱۹۷۶ء)، ’’روٹی کپڑا اور مکان، ہیرا لال پنا لال (۱۹۷۸ء)، پاکھنڈی (۱۹۸۴ء)، بھوانی جنکشن (۱۹۸۵ء)، ستیم شیوم سندرم، کرودھی (۱۹۸۱ء)، وکیل بابو (۱۹۸۳ء) اور ’’بندھن کچے دھاگوں کا‘‘ (۱۹۸۳ء) کے نام قابل ذکر ہیں۔
ششی کپورنے تقریباً دس فلموں میں ہیما مالنی کے ساتھ کام کیا۔ اداکار امیتابھ بچن کے ساتھ بھی اُن کی اچھی ساجھے داری خوب بنتی تھی۔ انہوں نے تقریباً ۱۲؍ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا، جن میں ’’روٹی کپڑا اور مکان، دیوار، کبھی کبھی، ایمان دھرم، ترشول، کالا پتھر، سہاگ، دو اور دو پانچ، شان، سلسلہ، نمک حلال اوراکیلا‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سنجیو کمار کے ساتھ بھی وہ برابر آتے رہے۔ فلم ’’شکتی، ترشول، مقدر، سوئمبر، سوال اورپاکھنڈی‘‘ وغیرہ میں دونوں نے ایک ساتھ کام کیا۔ ۱۹۷۵ء میں ناظرین کیلئے پیش کی گئی مشہور فلم ’’دیوار‘‘ میں ششی کپور کے ذریعہ ادا کیا گیا مکالمہ ’’میرے پاس ماں ہے‘‘ بے حد مقبول ہوا تھا اور اس فلم میں بہترین معاون اداکار کے طور پر اُن کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا بھی گیا تھا۔ اس فلم کے ہدایتکار یش چوپڑہ تھے اور کہانی اور مکالمے سلیم جاوید نے لکھے تھے جن کا ان دنوں طوطی بولتا تھا۔
۱۹۸۷ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان انہوں نے کئی کریکٹر رول بھی کئے جو کافی پسند کئے گئے۔ فلم’’محافظ‘ کیلئے ان کو اسپیشل جیوری کی طرف سے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس فلم میں اُن کے ساتھی اداکاروں میں اوم پوری، شبانہ اعظمی اور ٹینو آنند وغیرہ تھے۔ انہوں نے اپنا آخری بہترین کردار فلم ’’جناح‘‘ (۱۹۹۸ء) میں ادا کیا۔
ششی کپور ساتویں اور آٹھویں دہائی میں اتنے مصروف اداکار تھے کہ ایک دن میں وہ تین تین شفٹوں میں کام کرتے تھے اور آرام کئے بغیر ایک سے دوسرے اسٹوڈیو میں دوڑتے رہتے تھے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ میں ہیرو کے طور پرششی کپور اپنے بڑے بھائی راج کپور کو شوٹنگ کی تاریخیں نہیں دے پا رہے تھے تو راج کپور نے انہیں ٹیکسی اداکار کا لقب دے دیا تھا، جو ہر وقت میٹر ڈائون کرنے کے چکر میں دوڑتی رہتی ہے۔ کچھ لوگوںنے اُن کو بزی کپور کا بھی نام دیا تھا۔
۱۹۵۶ء میںجب ان کی عمر ۱۸؍سال تھی، اُن کی ملاقات انگلش اداکارہ جنیفر کینڈل سے کولکاتا کی ایک فلمی تقریب میںہوئی تھی۔اس کے بعد ان دونوں نے ایک ساتھ تھیٹرمیں کام بھی کیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ششی کپور اپنے والد پرتھوی راج کپور کے تھیٹر گروپ میں اداکاری کے ساتھ ہی معاون اسٹیج منیجر بھی تھے۔ جینفر کینڈل کے ساتھ چند ملاقاتوں کے بعد دونوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں۔ تھوڑی سی مخالفت کے بعد جولائی ۱۹۵۸ء میں ششی کپورنے جینفر سے شادی کر لی۔ بعدازاں دونوں نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام بھی کیا۔ دونوں کے یہاں پہلے کنال کپور کی اور کرن کپور اور سنجنا کپور کی پیدائش ہوئی۔
ششی کپور اور جینفر کپورنے ہی مل کر ۵؍نومبر ۱۹۷۸ء کو بمبئی کی جانکی کٹیر میں پرتھوی تھیٹر کی بنیاد ڈالی تھی۔ جہاں آج کے کئی مقبول اداکاروں نے اپنے فن کو تراشا۔ ششی کپور کی ہمدم خاص اُن کی بیوی جنیفر کپور کا کینسر کے مرض میں ۱۹۸۴ء میں بمبئی میں انتقال ہو گیا۔ نجی زندگی میں ششی کپور کو سفید کرتا اور پائجامہ پہننا زیادہ پسند تھا۔ وہ اپنے روزمرہ میں بہت اصول پسند رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کی صحت اور فٹ نیس خاص طور پر اُن کی بیوی جنیفر کینڈل کی کوششوں کا نتیجہ رہی تھی۔
ششی کپور نے آرٹ فلموںکو فروغ دینے کیلئے اپنے ہوم پروڈکشن ’فلم والاز‘ کی بنیاد ڈالی۔ اپنے ہوم پروڈکشن ’فلم والاز‘ کے بینر سے ششی کپور نے الگ طرح کا پرچم لہرانے کی کوشش کی۔ ملک کے بڑے اور باصلاحیت ہدایتکاروںکے تعاون سے انہوں نے کئی بہترین فلمیں بنائیں۔ شیام بینگل کے ذریعہ ’جنون‘ اور’ کل یگ‘، اپرنا سین کی ہدایت میں ’۳۶؍ چورنگی لین‘، گووند نہلانی کی ہدایت میں ’وجیتا‘ اور گریش کرناڈ کی ہدایت میں فلم ’اُتسو‘ بناکر اس رومانٹک ہیرو نے الگ قسم کے سنیما کی بنیاد ڈالی اور کمرشیل فلموں سے کمائے کروڑوں روپے اِن آرٹ فلموں کے ذریعہ لٹائے مگر اُن کا ضمیر ہمیشہ مطمئن رہا۔ اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں انہوں نے اپنی ہدایت میں ایک الگ قسم کی فنٹاسی فلم ’عجوبہ‘ کی فلمسازی کی، جس میں شمی کپور، امیتابھ بچن اور رشی کپور بھی مرکزی کردار میں تھے۔ششی کپور نے شیکسپیئرانا تھیٹرکمپنی کے تقریباً ۱۴؍ ڈراموں میں کام کیا تھا، جن میں سے۷؍ میں وہ ہیرو تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ڈرامے میں جنیفر کینڈل نے ششی کپور کی ماں کا کردار بھی ادا کیا تھا جبکہ حقیقی زندگی میں وہ اُن کی بیوی تھیں۔
بچپن میں ششی کپور کو آلو چپس، سموسے اور شربت پینے کا بہت شوق تھا۔ ششی کپور کو اپنے جنم دن کی پارٹیاں اپنے دوستوں کے ساتھ دھوم دھام سے منانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ وہ بڑے مست مولا قسم کے ایک ہنس مکھ انسان تھے۔ ششی کپور کو فرانس اور امریکن پرفیوم زیادہ پسند تھے اور کھانے میں چائنیز فوڈ پسند کرتے تھے۔ اُنہیں بچپن سے کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ وہ اپنے لڑکپن میں آر کے ا سٹوڈیو میں ہی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ششی کپور کو تیز کار چلانے اور جلدی جلدی کاریں بدلنے کا شوق بھی تھا۔ انہوں نے دنیا کے بہترین ڈرامہ نویسوں کی تخلیقات کا مطالعہ کیا تھا اور وہ جارج برناڈ شا کو سب سے اچھا ڈرامہ نویس مانتے تھے۔ وہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے بے حد ضدی بھی رہے،اسلئے جو بات دل میں ٹھان لیتے تھے، اس کو انجام تک پہنچاتے تھے۔
ششی کپور کے قریبی دوستوں میں اداکارہ نندہ کے علاوہ پران، دھرمیندر، دیوآنند، اسماعیل مرچنٹ، راجیش کھنہ اور سنجیو کمار کے نام قابل ذکر ہیں مگر اُن کی سب سے بہترین دوست اُن کی اپنی بیوی جنیفر کینڈل ہی تھیں۔
ششی کپورنے اپنی خاندانی بیماری موٹاپے کی وجہ سے ۱۹۹۰ء ہی سے فلموں میں کام کرنا تقریباً بند کر دیا تھا۔اس کے بعد وہ گھر کی چار دیواری میں تقریباً قید ہوکر رہ گئے تھے۔ ۱۹۹۸ء میں فلم ’جناح‘ اور ’سائیڈ اسٹریٹ‘ جیسی فلموں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے مکمل طور پر اداکاری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کے بعد پروگراموں میں آناجانا بھی بند کردیا تھا۔ کسی عوامی پروگرام میں آخری بار اُن کو مسقط میں ستمبر ۲۰۰۷ء میں دیکھا گیا تھا، جہاں اُن کو فلم فیئر کی طرف سے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ان کی فلمی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہت سارے ایوارڈ اور اعزازات دیئے گئے۔بطور فلمساز اور اداکار ششی کپور کی فلم’جنون‘ کو بہترین ہندی فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔فلم ’کل یگ‘ (۱۹۸۰ء) کیلئے فلمساز کی حیثیت سے ششی کپور کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔فلم’نمک حلال‘ کیلئے بہترین معاون اداکار کے زمرے میں فلم فیئر ایوارڈ کیلئے بھی انہیں نامزد کیا گیا تھا۔ فلم’نئی دہلی ٹائمز‘ کیلئے ۱۹۸۶ء میں بہترین اداکاری کا نیشنل ایوارڈ اور بمبئی فلم جرنلسٹ اسوسی ایشن کے خصوصی ایوارڈ سے بھی اُن کو نوازا جا چکا ہے۔ اسی طرح فلم ’اِن کسٹڈی‘ (محافظ) کیلئے انہیں اسپیشل جیوری کا نیشنل ایوارڈ دیا گیا ہے۔
ان کی دیگرفلموں میں ’مائی لَو‘ (۱۹۷۰ء)، ’اناڑی‘ (۱۹۷۵ء)، ’گہری چوٹ‘ (۱۹۸۳ء)، ’ماں بیٹی‘ (۱۹۸۶ء) اور ’گھر بازار‘ (۱۹۹۸ء)کیلئے انہیں بہترین اداکار کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ۲۰۱۱ء میں ششی کپور کو حکومت کی جانب سے پدم بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ہندوستانی سنیما کا سب سے بڑا اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘اُس وقت ملک کے مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات ارون جیٹلی کےہاتھوں ۷۷؍برس کی عمر میں اداکار ششی کپور کو پیش کیا گیا۔ اس ایوارڈ کی پیشکش کے موقع پر ششی کے قریبی رشتے داروں کے علاوہ دوست احباب اور پرتھوی تھیٹر سے جڑی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ زندگی بھر کی فلمی خدمات کے اعتراف میں دیا جانے والا یہ اعزاز سونے کے کمل جسے گولڈن لوٹس بھی کہا جاتا ہے ، کے علاوہ ایک شال اور دس لاکھ روپے پر مشتمل تھا۔
۴؍دسمبر ۲۰۱۷ء کو بروز پیر کو ان کی طبیعت خراب ہوئی تو ممبئی کے ورسوا علاقے کے کوکیلا بین اسپتال میں انہیں داخل کرایا گیا۔ ان کو سینے میں درد کی شکایت تھی۔ شام کو ۵؍ بج کر ۲۰؍ منٹ پر جگر پر وَرم اور انفیکشن کی وجہ سے وہیں اسپتال ہی میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۷۹؍برس تھی۔
ششی کپور نے اپنی زندگی میں اچھا اور بُرا، دونوں طرح کا وقت دیکھا، کامیابی اور ناکامی دونوں کا ذائقہ چکھا، مگر وہ زندہ دل شخصیت کے مالک تھے لہٰذا ہر موقع پر ان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ رقص کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی تمام زندگی بہت زندہ دلی کے ساتھ گزاری اور آخر میں اُسی زندہ دلی کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔