باغبانپورہ لاہور سے تعلق رکھنے والی شیاما کا اصل نام خورشید اخترھا۔ ان کا تعلق لاہورکے متمول ارائیں خاندان سے تھا۔ شیاما۷؍ جون ۱۹۳۵ءکولاہورمیں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۴۵ءمیں چھوٹی عمرمیں ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئیں۔
EPAPER
Updated: November 14, 2024, 11:19 AM IST | Mumbai
باغبانپورہ لاہور سے تعلق رکھنے والی شیاما کا اصل نام خورشید اخترھا۔ ان کا تعلق لاہورکے متمول ارائیں خاندان سے تھا۔ شیاما۷؍ جون ۱۹۳۵ءکولاہورمیں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۴۵ءمیں چھوٹی عمرمیں ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئیں۔
باغبانپورہ لاہور سے تعلق رکھنے والی شیاما کا اصل نام خورشید اخترھا۔ ان کا تعلق لاہورکے متمول ارائیں خاندان سے تھا۔ شیاما۷؍ جون ۱۹۳۵ءکولاہورمیں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۴۵ءمیں چھوٹی عمرمیں ہی وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئیں۔ ۱۹۴۵ءمیں سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’زینت‘کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ اس شوٹنگ کو دیکھنے کیلئےشیامااپنے اسکول کی دیگر طالبات کے ساتھ اسٹوڈیو آئی تھیں۔ وہاں ایک قوالی فلمائی جارہی تھی۔ شوکت حسین رضوی نے انہیں بھی اس قوالی میں شامل کرلیا۔ یہ قوالی بعد میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے ’آہیں نہ بھریں، شکوےنہ کئے‘۔ یہ وہی مشہور زمانہ قوالی تھی جس میں پہلی بار ششی کلا بھی جلوہ گر ہوئی تھیں۔ انہیں گلوکارہ و اداکارہ نورجہاں کی سفارش پر شوکت رضوی نے اس قوالی کی ٹیم میں شامل کیا۔ ’زینت‘نے پورے ہندوستان میں زبردست کامیابی حاصل کی یہیں سے شیاما کے فلمی سفرکا آغاز ہوا۔ شیاما کی ایک اہم فلم ’پتنگا‘تھی جو ۱۹۴۹ءمیں ریلیزہوئی تھی۔ ’پتنگا‘ اپنے زمانے کی مشہور ترین فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ پورنیما، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ شیاما نےبڑے اعتماد سے کام کیا اور بے شمار فلم میکرز کو متاثر کیا۔ ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو ۱۹۵۳ءمیں شیاما کا فلمی نام دیا کیونکہ اُس دورمیں خورشید نام کی دواداکارئیں پہلے سے موجود تھیں۔ شیاما بڑی خوش شکل تھیں۔ پرکشش نین نقش کی حامل اس اداکارہ نےبہت جلد لاکھوں فلم بینوں کے دل جیت لئے۔ وہ بلا کی ذہین تھیں اورکیمرے کا سامنا انتہائی پراعتمادی سے کرتی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ کیمرے سے نہیں بلکہ کیمرہ ان کا سامنا کرنے سے گھبراتا تھا۔
ان کی خیرہ کن صلاحیتوں نے ہر ہدایت کار کو متاثرکیا جن میں اے آرکاردار اور گرودت جیسے عظیم ہدایتکاربھی شامل تھے۔ گرودت نے انہیں اپنی فلم ’آرپار‘ میں کاسٹ کیا اس فلم نے شیاما کوشہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ان کی فلم ’بھائی بھائی‘ بھی جو ۱۹۵۶ءمیں ریلیز ہوئی تھی بہت مشہور ہوئی۔ اس میں ان پر عکس بند کیا گیایہ گانا’’اے دل مجھے بتا دے، تو کس پر آ گیا ہے‘‘ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے اس گیت کی پکچرائزیشن بھی لاجواب تھی۔ شیامانے ۲۰۰؍سے زائد فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’ہم لوگ، برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، دل دیادرد لیا، ملن، پائل کی جھنکار، شاردا، کھیل کھیل میں، اجنبی، نیادن نئی رات، جی چاہتا ہے، تقدیر، بھابی، دل ناداں، پتنگا، شبنم، شرط، شری متی جی‘‘ زبک اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ ۱۹۵۷ءکی فلم’شاردا‘میں انہیں بہترین معاون اداکارہ کےفلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ’دل دیا درد لیا‘ اے آر کاردار کی فلم تھی جس میں دلیپ کمار، وحید رحمان، رحمان اورپران جیسے اداکار تھے لیکن اس فلم میں شیاما نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بلاشبہ وہ ۵۰ءاور ۶۰ءکی دہائی کی اہم اداکارہ تھیں۔ ۱۹۵۳ءمیں انہوں نے ایک سینماٹوگرافر فالی مستری سے شادی کرلی تھی۔ ان کے دوبیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ۱۹۷۹ءمیں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کردیا تھا۔ شیاما آخری بار سلور اسکرین پر ۱۹۸۹ءمیں ریلیزہوئی فلم ’ہتھیار‘ میں نظر آئی تھیں۔ شیاما کے آج بھی دنیا میں ان گنت مداح ہیں۔ اپنے زمانے کی ذہین اور بلا کی خوبصورت اس اداکارہ خورشید اختر عرف شیاما نے ۸۲؍برس کی عمرمیں ۱۴؍ نومبر ۲۰۱۷ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔