رفیع صاحب نے اپنے دور میں بہت سے نغموں کو آواز دی ہے جو آج بھی فلم شائقین کے ذہن میں گونجتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نغمے ایسے ہیں جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور گلوکار انصاف کربھی پاتا یا نہیں ؟
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 12:47 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
رفیع صاحب نے اپنے دور میں بہت سے نغموں کو آواز دی ہے جو آج بھی فلم شائقین کے ذہن میں گونجتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نغمے ایسے ہیں جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور گلوکار انصاف کربھی پاتا یا نہیں ؟
محمد رفیع کیلئے اداکار اور موسیقار میں اَن بن ہوگئی تھی
رفیع صاحب نے اپنے دور میں بہت سے نغموں کو آواز دی ہے جو آج بھی فلم شائقین کے ذہن میں گونجتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نغمے ایسے ہیں جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور گلوکار انصاف کربھی پاتا یا نہیں ؟ ایسا ہی ایک معاملہ فلم ’پتھر کے صنم‘ کے ٹائٹل نغمے کی ریکارڈنگ کے موقع پر پیش آیا تھا۔اس کی وجہ سے فلم کے ہیرو منوج کمار اور موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کے درمیان کچھ ان بن بھی ہوگئی تھی۔ آئیے جانتے ہیں یہ دلچسپ کہانی کیا تھی؟
جس وقت یہ فلم تیاری کے مراحل میں تھی، اس کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال ٹائٹل گانے کیلئے گلوکار کی تلاش میں تھے۔ یہ نغمہ مجروح سلطان پوری صاحب کے تخیل اور زور قلم کا نتیجہ تھا۔ یہ نغمہ اتنا جذباتی تھا کہ اسے درد بھری آواز کی ضرورت تھی۔ ایسے میں موسیقار کے ذہن میں سب سے پہلے رفیع صاحب کا نام آیا۔ ان کا کہنا تھاکہ اس نغمے سے رفیع صاحب ہی انصاف کرسکتے ہیں لیکن فلم کے ہیرو منوج کمار اس کیلئے تیارنہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیشتر نغموں کو چونکہ مکیش نے آواز دی ہے، اسلئے وہ زیادہ مناسب رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کیلئے مکیش کی آواز ہی سوٹ کرے گی۔
صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اس ایک گانے کی وجہ سے منوج کمار اور لکشمی کانت پیارے لال کے درمیان تصادم کی نوبت آگئی۔ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم تھے۔ ایسے میں معاملہ فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تک پہنچ گیا لیکن اُن دونوں نے موسیقی کے معاملے میں مداخلت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ بالآخر منوج کمار کو جھکنا پڑا اور یہ گانا محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ اس گانے کے ریلیز ہوتے ہی اس نے دھوم مچا دی اور فلم ہٹ ہوگئی۔ اُس وقت منوج کمار بھی یہ کہنے پرمجبور ہوئے کہ رفیع صاحب کے علاوہ یہ گانا کوئی اور نہیں گا سکتا تھا۔
رفیع صاحب نے کہا ’’مجھ سے پاپ کیوں کروارہے ہو؟‘‘
رفیع صاحب کی انکساری اوران کی خوش مزاجی کیلئے پوری فلم انڈسٹری ان کی تعریف کرتی ہے لیکن ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا جب رفیع صاحب نے ایک گیت کے تین بند گانے کے بعد آگے گانے سے انکار کردیا۔یہ واقعہ ہے ۱۹۸۱ء میں ریلیز ہونے والی چیتن آنند کی فلم ’قدرت‘ کا۔ اس فلم کے کچھ نغموں کیلئے کشور کمار کا نام فائنل ہوا تھا لیکن ’بیک گراؤنڈ سانگ‘ کیلئے موسیقار آر ڈی برمن چاہتے تھے کہ کسی نئے گلوکار کو موقع دیا جائے جبکہ چیتن آنند اس کیلئے رفیع صاحب کے حق میں تھے۔آر ڈی برمن نے چندر شیکھر گاڈگل کا نام بھی پیش کردیا۔ بہت مشکل سے چیتن آنند اس کیلئے آمادہ ہوئے ۔ بہرحال نغمہ ریکارڈ کرلیاگیا۔لیکن جب چیتن آنند نے ریکارڈ ہونے کےبعد گانا سنا تو کہا کہ شاید رفیع صاحب ہی اس گانے کے ساتھ زیادہ انصاف کرپاتے۔ اس پر چیتن آنند سے اتفاق کرتے ہوئے برمن دا نے رفیع صاحب کو گانے کی ریکارڈنگ کیلئے بلایا۔ رفیع صاحب ریکارڈنگ کیلئے آئے اور گانے کے۳؍ بند ریکارڈ بھی کرا دیئے ۔ پھر چائے کا وقفہ ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریکارڈنگ کے وقت چندر شیکھر گاڈگل بھی وہاں موجود تھے۔ چائے کی چسکیوں کے درمیان ریکارڈنگ روم سے اسی گانے کی آواز آئی جو رفیع صاحب ریکارڈ کر رہے تھے۔ انہوں نے وہاں کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ گانا پہلے کسی اور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔
رفیع صاحب نے آر ڈی برمن کو بلایا اور پوچھا کہ ’’پنچم، کیا یہ گانا پہلے ریکارڈ ہوچکا ہے؟‘‘ اس پر آر ڈی برمن نے سارا معاملہ رفیع صاحب کو بتادیا اور گانے کی ریکارڈنگ مکمل کرنے کی درخواست کی۔ رفیع صاحب گاڈگل کی آواز میں ریکارڈ شدہ گانا سن چکے تھے۔ انہوں نے برمن دا سے کہا کہ’’تم مجھ سے یہ پاپ کیوں کروا رہے ہو؟ ایک باصلاحیت گلوکار کا کریئر کیوں خراب کر رہے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر رفیع صاحب وہاں سے چلے گئے۔ برمن دا نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن رفیع صاحب کسی گلوکار کی محنت کو خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد فلم میں چندر شیکھر گاڈگل کی ہی آواز میں یہ گانا استعمال کیا گیا۔
دکھ سکھ کی ہر اِک مالا، قدرت ہی پروتی ہے
ہاتھوں کی لکیروں میں یہ جاگتی سوتی ہے
دکھ سکھ کی ہراِک مالا....