آنندبخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پرپہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانےکے خوف سےانہوں نےاپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔
EPAPER
Updated: March 30, 2025, 10:50 AM IST | New Delhi
آنندبخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پرپہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانےکے خوف سےانہوں نےاپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔
اپنےسدا بہار گیتوں سے سامعین کا دل لبھانےوالےبالي ووڈ کے مشہور نغمہ نگارآنند بخشی نے تقریبا۴؍ دہائی تک سامعین کواپنا دیوانہ بنائے رکھا لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وہ نغمہ نگار نہیں بلکہ گلوکار بننا چاہتے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی(اب یہ پاکستان کا حصہ ہے) میں ۲۱؍ جولائی ۱۹۳۰ء کوپیدا ہوئے آنند بخشی کو ان کے رشتہ دارپیار سے نند یا نندو کہہ کر پکارتے تھے۔ بخشی ان کے خاندان کا لقب تھا جبکہ ان کے اہل خانہ نے ان کا نام آنند پرکاش رکھا تھا۔ لیکن فلمی دنیا میں آنے کے بعدآنند بخشی کے نام سے ان کی پہچان بنی۔
آنندبخشی بچپن سے ہی فلموں میں کام کرکے شہرت کی بلندیوں پرپہنچنے کا خواب دیکھا کرتے تھے لیکن لوگوں کے مذاق اڑانےکے خوف سےانہوں نےاپنی یہ منشا کبھی ظاہر نہیں کی تھی۔ وہ فلمی دنیا میں گلوکارکے طور پر اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے۔ آنند بخشی اپنے خواب کوپورا کرنے کے لئے۱۴؍سال کی عمرمیں ہی گھر سے بھاگ کر فلم نگری ممبئی آ گئے جہاں انہوں نےرائل انڈين نیوی میں کیڈٹ کے طور پر ۲؍سال تک کام کیا۔ کسی تنازعہ کی وجہ سے انہیں وہ نوکری چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۶ءتک انہوں نے ہندوستانی فوج میں بھی ملازمت کی۔
بچپن سےہی مضبوط ارادے والے آنند بخشی اپنے خواب کو پوراکرنےکیلئےنئےجوش کے ساتھ دوبارہ ممبئی پہنچےجہاں ان کی ملاقات اس زمانے کے مشہور اداکار بھگوان دادا سے ہوئی۔ شاید قسمت کو یہی منظور تھاکہ وہ نغمہ نگارہی بنیں۔ بھگوان دادا نے انہیں اپنی فلم’’بھلا آدمی‘‘ میں نغمہ نگار کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔ اس فلم کے ذریعے وہ اپنی شناخت بنانے میں بھلے ہی کامیاب نہیں ہو پائے لیکن ایک نغمہ نگار کے طورپر ان کے فلمی کریئرکا سفر شروع ہو گیا۔
آنندبخشی تقریباً ۷؍برسوں تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرتے رہے۔ ۱۹۶۵ءمیں فلم ’’جب جب پھول کھلے‘‘ ریلیز ہوئی تو ان کے نغمے ’’پردیسیوں سے نہ اكھياں ملانا، یہ سماں سماں ہے یہ پیار کا، ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل‘‘ سپر ہٹ رہے اور نغمہ نگارکے طور پر ان کی شناخت بن گئی۔ اسی سال فلم ’ہمالیہ کی گود میں ‘ان کا نغمہ ’’چاند سی محبوبہ ہومری کب ایسا میں نے سوچا تھا ‘‘ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔ ۱۹۶۷ءمیں ریلیزسنیل دت اور نوتن کی فلم ’ملن‘ کےنغمہ ’’ساون کا مہینہ پون کرے شور، یگ یگ تک ہم گیت ملن کے گاتے رہیں گے، رام کرے ایسا ہو جائے‘‘ جیسے سدابہارنغموں کے ذریعے انہوں نے نغہ نگارکے طور پر نئی بلندیوں کو چھو لیا۔
فلم انڈسٹری میں بطور نغمہ نگارجگہ بنانے کے بعد بھی گلوکار بننے کی آنندبخشی کی حسرت ہمیشہ بنی رہی۔ انہوں نے۷۰ءکی دہائی میں آئی فلم موم کی گڑیا میں ’’میں ڈھونڈرہا تھا سپنوں میں ‘‘ اور ’’باغوں میں بہارآئی‘‘جیسے۲؍ نغے گائے، جو کافی مقبول بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی فلم ’چرس‘کاگیت ’’آجا تیری یاد آئی‘‘کی چند لائنوں میں اور کچھ دیگر فلموں میں بھی انہوں نے اپنی آواز دی ہے۔ آنند بخشی نے۵۵۰؍سےبھی زائد فلموں میں تقریباً ۴؍ ہزار گیت لکھے۔ اپنے نغموں سے تقریبا۴؍دہائی تک سامعین کو مسحور کرنے والے نغمہ نگار آنند بخشی ۳۰؍ مارچ۲۰۰۲ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔