۴۰ء کی دہائی میں پرتھوی راج نے اسٹوڈیو کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے فری لانسنگ سسٹم شروع کیا۔ یہی ایک طرح سے اسٹار سسٹم کی بھی ابتدا تھی۔ اس
سے قبل فلم اداکار اسٹوڈیو یا فلم کمپنی کا تنخواہ دار ہوا کرتے تھے۔ انہوںنے کسی ایک اسٹوڈیو میں نوکری کرنے کے بجائے الگ الگ کمپنیوں کی فلمیں سائن کیںلہٰذا
پرتھوی راج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فری لانسنگ سسٹم کو دوسرے اداکاروں نے بھی اپنایا اور بعد میں فلم انڈسٹری میں یہی طریقہ رائج ہوگیا
فلمی دُنیا میں چند ہی گنی چنی ہستیاں ایسی گزری ہیں، جنہوںنے اپنی زندگی میں کچھ ایسے کام کئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ فلمی دُنیا کی تاریخ میں امر ہو گئے ہیں۔ چاہے وہ تکنیکی اعتبار سے کوئی اہم کام ہو، یا کوئی یادگار کردار ادا کرنے کا کام ہو۔ اُن لوگوں میں دادا صاحب پھالکے کا نام سرفہرست ہے، جنہوںنے ہندوستان میں فلموں کی بنیاد ڈالی۔ اِسی لئے اُن کو ہندوستانی فلموں کا جنم داتا کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح محبوب خان، سہراب مودی، کے آصف، کمال امروہوی، بلراج ساہنی، اشوک کمار، محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دلیپ کمار وغیرہ کچھ نام ایسے ہیں جن کو ہندوستانی فلموں کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ایسے ہی چند ناموں میں ایک درخشاں نام آنجہانی پرتھوی راج کپور کا بھی ہے جنہوںنے نہ صرف خود اپنی زندگی فلموں کیلئے وقف کر دی بلکہ ایک پورا فلمی خاندان ہندوستانی فلموں کو عطا کیا۔ آج اُن کے بیٹے اور پوتے تک اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ راج کپور بطور اداکار مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ایک کامیاب ہدایتکار اور فلمساز بنے۔ شمی کپور کریکٹر آرٹسٹ ہو گئے، ششی کپور بھی ایک بہترین فلمساز کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پرتھوی راج کپور کے پوتوں کی بھی ایک کافی بڑی جماعت ہے جو پورے طور پر فلموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں رندھیر کپور، رشی کپور، راجیو کپور اور کنال کپور کافی اہم ہیں۔ ان کی دو پڑپوتیوں (رندھیر کپور کی بیٹیوں)، کرشمہ کپور اور کرینہ کپور نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔
پرتھوی راج کا جنم۳؍نومبر۱۹۰۶ء کو پشاور کے ایک متمول کپور خاندان میں پولیس انسپکٹر بشیشرناتھ کپور کی پہلی بیوی کی اکلوتی اولاد کے طور پر ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم لائل پور میں ہوئی، بعدمیں پشاور کے کالج سے انہوں نے گریجویشن کیا۔جوانی کے دنوںمیں وہ ایک وجیہ، خوبصورت شکل وصورت کے چھ فٹ سے کچھ نکلتے ہوئے گبرو نوجوان تھے۔۱۰؍دسمبر۱۹۲۳ءکو ان کی شادی رمادیوی سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ قانون کی پڑھائی کیلئے لاہور چلے گئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں ایک دن پرتھوی راج کپور کو اپنی بیوی رمادیوی کا ہندی میں لکھا ہوا خط ملا۔چونکہ وہ ہندی نہیں جانتے تھے، اسلئے انہوںنے اپنے روم پارٹنر پورن سنگھ سے ایک دن میں کام چلائو ہندی پڑھنا سیکھا اور اپنی بیوی کا خط خود پڑھ کر اس کا جواب بھی ہندی میں ہی لکھ کر بھیجا۔
۱۹۲۹ء کے شروعاتی مہینوں میں ہی وہ کالج کے لڑکوں اور ان کے حساب سے مغرور قسم کے پروفیسروں سے اُکتا گئے۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ اداکاری کے فن میں ہی زیادہ ذہنی سکون حاصل کر سکیںگے۔ دل میں یہ خیال آتے ہی انہوںنے کالج اور پڑھائی چھوڑی اور بیوی اور بڑے بیٹے کو پشاور ہی میں چھوڑ کریہ کہتے ہوئے بمبئی آگئے۔ گِرگائوں میں آردیشر ایرانی کی ’امپیریل فلم کمپنی‘ تھی۔ وہاں پرتھوی راج کو ایکسٹرا اداکار کے بطور پہلی بار فلم ’چیلنج‘ میں ایک کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اُن دِنوں وہ فارس روڈ جیسے بدنام علاقے کی ایک گلی کی بلڈنگ میں کرائے کا کمرہ لے کر رہنے لگے۔
پرتھوی راج کو جلد ہی ان کی پُروقار شخصیت کی وجہ سے آردیشر ایرانی نے اپنی اگلی فلم ’سنیما گرل‘ میں ہیرو بنا دیا اور ایکسٹرا کا لیبل اُن کے نام سے ہٹ گیا۔ اس فلم میں اِیرملین ان کی ہیروئن تھیں۔ ہدایتکار بی پی مشرا کی فلم ’طوفان‘ میں بھی اسی جوڑی کو دہرایا گیا۔ اس کے بعد مشرا جی کی فلم ’دروپدی‘ میں انہوں نے ارجن کا کردار ادا کیا۔ فلم’وجے کمار‘ اور ’بینڈ فار دی تھرون‘ میں وہ جِلّوبائی کے ساتھ ہیرو بنے اور’نورانی موتی، لاہور کی بیٹی اور دھرتی ماتا‘ میں ان کی ہیروئن زہرہ بنیں۔ اس کے علاوہ ’نمک حرام کون؟‘ اور’پریم کا دائو‘ پرتھوی راج کپور کی کچھ ایسی خاموش فلمیں تھیں جو۱۹۳۱ء تک نمائش کیلئے پیش کی جا چکی تھیں۔
۱۴؍مارچ۱۹۳۱ء کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک زبردست انقلاب آیاجب ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ فلمساز ہدایتکار آردیشر ایرانی کی اس فلم میں پرتھوی راج کپور نے عالم آرا (زبیدہ) کے باپ کا کردار ادا کیا تھا جو بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ ملک کے اس ناچتے گاتے اور بولتے ہوئے کرشمے نے لوگوں پر جادو جیسا اثر کیا۔ حالانکہ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار کے صحافی نے پرتھوی راج کی اداکاری اور خاص طور پر ان کی آواز کی سخت الفاظ میں تنقید کی اور لکھا کہ ان کی آواز فلموں کیلئے موزوں نہیں ہے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں متکلم فلموں کیلئے ان کی یہی آواز ان کی اور فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گئی۔
یہ وہی زمانہ تھا جب پرتھوی راج کا تھیٹر کی طرف رجحان بڑھنے لگاتھا۔ بمبئی کے اوپیرا ہائوس میں انہوںنے ’گرینڈ انڈین نیشنل تھیٹر‘ نام کے ایک گروپ کے ساتھ کام شروع کر دیا مگر جلد ہی چار سو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر کلکتہ کے’نیو تھیٹرس‘ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ بمبئی میں انہوںنے۱۹۳۲ء میں ’امپیریل فلم کمپنی‘ کی ’دغابازعاشق‘ میں زہرہ کے ساتھ کام کیا تھا اور۱۹۳۳ء سے لے کر۱۹۳۹ء تک پرتھوی راج نے کلکتہ کے نیو تھیٹرس کی تقریباً ۱۰؍ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے علاوہ تقریباً ۶؍ فلمیں نیو تھیٹرس سے باہر کی بھی کیں۔
کلکتہ جانے سے پہلے انہوںنے اپنی شدید خواہش کے مطابق رنجیت اسٹوڈیو کی فلموں میں کام کرنے کیلئے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ ملے مگر چندو لال شاہ نے ان کے ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے انہیں اسٹنٹ فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دے کر ٹال دیا۔ تب پرتھوی راج یہ کہتے ہوئے اُن کے دفتر سے باہر آگئے کہ آپ ہندوستان کے ایک بہت بڑے اداکار کومسترد کر رہے ہیں۔
۱۹۳۹ء میں پرتھوی راج واپس بمبئی آگئے اور ایک ہزار روپے ماہوار پر سیٹھ چندو لال شاہ کے رنجیت مووی ٹون سے وابستہ ہو گئے حالانکہ انہوںنے اب تک کافی شہرت، عزت اور پیسہ حاصل کر لیاتھا، مگر وہ ہمیشہ ایک سادہ سی زندگی گزارنے کے قائل رہے۔ ماٹونگا کے ان کے فلیٹ میں ہمیشہ مہمان بھرے رہتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت جب جگہ جگہ ہندو مسلم فساد ہو رہے تھے تو پنجاب سے ان کے کئی رشتہ دار خاندان بمبئی آکر ان کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
رنجیت مووی ٹون کے ساتھ پرتھوی راج کی سب سے پہلی فلم ۱۹۳۹ء میں’ادھوری کہانی‘ کی نمائش ہوئی، جس کی ہیروئن دُرگا کھوٹے تھیں۔ اس کے بعد انہوںنے رنجیت مووی ٹون کی’آج کا ہندوستان‘ اور ’پاگل‘ (۱۹۴۰ء)، ’گوری‘ اور ’وش کنیا‘ (۱۹۴۳ء) فلموں میں کام کیا، جن میں ستارہ دیوی، مادھوری، شمیم اور سادھنا بوس ان کی ہیروئنیں تھیں۔اس درمیان پرتھوی راج نے ’چنگاری، دیپک، سجنی‘ (۱۹۴۰ء)، ’راج نرتکی،سکندر‘ (۱۹۴۱ء)، ’ایک رات، اُجالا‘ (۱۹۴۲ء)، ’آنکھوں کی شرم، بھلائی، اشارہ‘ (۱۹۴۳ء) فلمیں بھی کیں۔ ان میں ’سکندر‘ اور ’راج نرتکی‘ اُس زمانے کی کامیاب فلمیں تھیں۔ فلم’پُکار‘ کی بے پناہ کامیابی سے متاثر ہوکر فلمساز سہراب مودی نے فلم ’سکندر‘ کو اور زیادہ عالیشان بنانے کی کوشش کی تھی۔ سکندر کے کردار میں پرتھوی راج کپور، پورس کے کردار میں خود سہراب مودی اور رُخسانہ کے کردار میں وَنمالا نے پورے ہندوستان میں دھوم مچا دی۔ اِن دونوں فلموں نے پرتھوی راج کو شہرت کے نئے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد پرتھوی راج کی مذہبی، دیومالائی اور تاریخی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہےمگر ۱۹۴۴ء میں وی شانتارام کی فلم ’شکنتلم‘ میں انہیں کام نہیں ملا اور وہ ایک تھیٹر گروپ بنانے کی بات اپنے دل میں ٹھان بیٹھے۔
دوبارہ بمبئی لوٹنے کے بعد پرتھوی راج نے اسٹوڈیو کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے فری لانسنگ سسٹم شروع کیا۔ یہی ایک طرح سے اسٹار سسٹم کی بھی ابتدا تھی۔ اس سے قبل فلم اداکار اسٹوڈیو یا فلم کمپنی کا تنخواہ دار ہوا کرتے تھے۔ انہوںنے کسی ایک اسٹوڈیو میں نوکری کرنے کے بجائے الگ الگ کمپنیوں کی فلمیں سائن کیںلہٰذا پرتھوی راج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فری لانسنگ سسٹم کو دوسرے اداکاروں نے بھی اپنایا۔۱۹۴۵ء میں اسٹیج کی مقبول اداکارہ عذرا ممتاز کے ساتھ ’شکنتلا‘ ڈراما کرکے انہوںنے ’پرتھوی تھیٹر گروپ‘ کی بنیاد ڈالی اور آئندہ آنے والے ۱۵؍ برسوں تک’پرتھوی تھیٹر گروپ‘ لگاتار اپنے شوز کرتا رہا۔۱۹۶۰ء تک ۱۶؍ برس کے وقفے میں پرتھوی راج کپور نے تقریباً ایک سو پچاس اداکاروں، ادیب شاعروں، موسیقاروں اور تکنیکی لوگوں کی منڈلی کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کیا اور تھیٹر کی طاقت کا احساس عوام کو کرایا۔ اپنے ایک تھیٹر کاقیام اب اُن کا سب سے بڑا خواب بن چکا تھا۔ وہ ہر شو کے بعد ناظرین سے اپنے ایک تھیٹر کے قیام میں تعاون کرنے کی اپیل کرتے تھے اور بعد میں تھیٹر کے باہر چندہ اکٹھا کرنے کیلئے دامن پھیلاکر کھڑے ہو جاتے تھے۔ حالانکہ ان کا یہ خواب اُن کے انتقال کے بعد شرمندۂ تعبیرہوا۔ ان کی موت کے بعد ’پرتھوی راج کپور میموریل ٹرسٹ‘ کا قیام عمل میں آیا اور پھر۱۹۷۸ء میں ان کی یاد میں اس ٹرسٹ نے ایک تھیٹر کی تعمیر کرائی۔
ملک بھر میں اسٹیج شوز کرنے کے ساتھ ہی اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انہوںنے بہت سی فلموں میں بھی کام کیا۔ جن میں خاص طور پر’آزادی کی راہ پر (۱۹۴۸ء)، جہیز،ہندوستان ہمارا (۱۹۵۰ء)، آوارہ، دیپک (۱۹۵۱ء)، آنند مٹھ، انسان (۱۹۵۲ء) آگ کا دریا (۱۹۵۳ء)، احسان (۱۹۵۴ء)، پردیسی، پیسہ (۱۹۵۷ء)، لاجونتی (۱۹۵۸ء) اور’مغل اعظم‘ (۱۹۶۰ء) خاص طور پر مقبول اور کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔۱۹۵۷ء میں انہوںنے پرتھوی تھیٹر بند کرکے اسے فلمسازی کے ادارے میں تبدیل کردیا تھا اور اس کے بینر سے انہوںنے اپنے ہی ایک مقبول ناٹک ’پیسہ‘ پر فلم بنائی جس کی ہدایتکاری خود پرتھوی راج نے کی۔ اس فلم میں پرتھوی تھیٹر کے خاص خاص اداکاروں کے ساتھ ہی انہوںنے اپنی پہلی خاموش فلم ’سنیما گرل‘کی ہیروئن اِیرملین کو بھی موقع دیا مگر یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گئی اور پرتھوی راج نے پھر کبھی فلمسازی یا ہدایتکاری کاحوصلہ نہیں کیا۔