ہندوستانی سنیما میں سچترا سین کو ایک ایسی اداکارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے بنگلہ فلموں میں قابل تعریف اداکاری کے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی خاص شناخت قائم کی۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 1:36 PM IST | Agency | Mumbai
ہندوستانی سنیما میں سچترا سین کو ایک ایسی اداکارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے بنگلہ فلموں میں قابل تعریف اداکاری کے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی خاص شناخت قائم کی۔
ہندوستانی سنیما میں سچترا سین کو ایک ایسی اداکارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے بنگلہ فلموں میں قابل تعریف اداکاری کے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی خاص شناخت قائم کی۔ ان کا اصل نام روما داس گپتا تھا۔ ان کی پیدائش۶؍اپریل۱۹۳۱ءکو پانا ضلع ( بنگلہ دیش )میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کرونوم داس گپتا ایک ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پابنا ہی سے حاصل کی تھی۔ ۱۹۴۷ء میں ان کی شادی بنگال کے مشہور صنعت کار آدی ناتھ سین کے بیٹے دیبا ناتھ سین سے ہوئی۔ ۱۹۵۲ءمیں انہوں نے اداکارہ بننے کیلئے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور بنگلہ فلم’’شیش کوتھا‘‘میں کام کیا۔ یہ اور بات ہے کہ فلم ریلیز ہی نہیں ہوسکی۔
اسی سال ایک بنگلہ فلم’سارے چتر‘ ریلیز ہوئی جوبطور اداکارہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے اتم کمار کے ساتھ کام کیا تھا۔ نرمل ڈے کی ہدایت میں بنی یہ فلم مکمل طورپر مزاحیہ عنصر لئے ہوئے تھی۔ بہترین اداکاری اور اچھی مزاحیہ اسکرپٹ پر مبنی یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد اس جوڑی نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ ان میں ہرانو سر اور سپتو پدی قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۵۷ء میں اجے کارکی ہدایت میں بنی فلم ہرا نوسر ’۱۹۴۲ء‘میں ریلیز انگریزی فلم ’رینڈم ہارویسٹ‘ کی کہانی پر مبنی تھی۔ ۱۹۵۵ء میں انہوں نے ہندی فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انہیں شرت چندر کے مشہور بنگلہ ناول ’دیوداس‘ پر مبنی فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ومل رائے کی ہدایت میں بنی اس فلم میں انہیں اداکار شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم میں انہوں نے ’پارو‘ کے اپنے کردار سے شائقین کا دل جیت لیاتھا۔ سچترا خود کو ان معنوں میں خوش نصیب سمجھتی تھیں کہ ان کی پہلی ہندی فلم دلیپ کمار کے ساتھ تھی۔
۱۹۵۷ء میں سچترا سین کو دو اور ہندی فلموں ’مسافر‘ اور ’چمپاکلی‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ر شی کیش مکھرجی کی ہدایت میں بنی فلم ’مسافر‘ میں انہیں دوسری بار دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جبکہ فلم چمپاکلی میں انہوں نے بھارت بھوشن کے ساتھ کام کیا لیکن دونوں ہی فلمیں باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئیں۔ ۱۹۵۹ء میں ریلیز بنگلہ فلم ’دیپ جولے جائے‘ میں ان کی اداکاری کے نئے طول و عرض ناظرین کو دیکھنے کو ملے۔ اس میں انہوں نے رادھا نامی نرس کا کردار ادا کیا، جو پاگل مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود ہی بیمار ہو جاتی ہے۔ اپنے دکھ درد کو انہوں نے آنکھوں اور چہرے سے اس طرح پیش کیاجیسے وہ اداکاری نہ کرکے حقیقی زندگی جی رہی ہوں۔ ۱۹۶۹ء میں اس فلم کا ہندی ریمیک ’خاموشی‘ بھی بنائی گئی جس میں ان کے کردار کو وحیدہ رحمان نے پیش کیا تھا۔
۱۹۶۰ء میں آئی فلم ’بمبئی کا بابو‘ ان کے فلمی کریئر کی ایک اور سپر ہٹ ہندی فلم ثابت ہوئی۔ راج کھوسلہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں انہیں دیو آنند کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس جوڑی کو ناظرین نے کافی پسند کیا۔ ۱۹۶۳ء میں فلم ’اتر پھالگني‘ سچترا سین کی ایک اور اہم فلم ثابت ہوئی۔ اسیت سین کی ہدایت میں بنی اس فلم میں انہوں نے ماں اور بیٹی کا ڈبل کردار نبھایاتھا۔ اس میں انہوں نے ایک طوائف پنا بائی کا کردار ادا کیا تھا جس نے اپنی وکیل بیٹی سپرنا کو صاف ستھرے ماحول میں پرورش کرنے کا عہد لیا ہے۔ اس فلم میں پنا بائی کی موت کا منظر کو ناظرین آج بھی نہیں بھول پائے ہیں۔ ۱۹۶۳ء میں ان کی ایک اور سپرہٹ فلم ’سات پا کے باندھا‘ آئی۔ اس فلم میں اپنی سنجیدہ اداکاری سے انہوں نے ناظرین کا دل جیت لیا۔ اس فلم کیلئے ماسکوفلم فیسٹیول میں سرفہرست فلم اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ فلمی دنیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی ہندوستانی اداکارہ کو غیر ممالک میں ایوارڈ ملا تھا۔ اس فلم کی کہانی پر ۱۹۷۴ء میں فلم کورا کاغذ بنائی گئی تھی۔
۱۹۷۵ء میں گلزارکی ہدایت والی سپرہٹ فلم ’آندھی‘ آئی جس میں انہوں نے سنجیوکمار کے ساتھ کام کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے ایک سیاسی لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کا نغمہ ’تیرے بنا زندگی سے شکوہ تو نہیں ‘ اور تم آگئے ہو نور آگیا‘ سدا بہار نغموں کی فہرست میں شامل ہیں۔ انہوں نے۱۹۷۸ء میں بنگلہ فلم ’پرونوئے پاش‘ کے بعد فلم انڈسٹری چھوڑ دی اور رام کرشن مشن کی رکن بن گئیں اور سماجی کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ ۱۹۷۲ء میں انہیں پدم شری ایوارڈسے نوازا گیا۔ اپنی اداکاری سے شائقین کے درمیان خاص شناخت بنانے والی سچتراسین۱۷؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا سے رخصت ہوگئیں۔