سنیل دت کی قسمت کا ستارہ ۱۹۵۷ء میں ریلیز فلم مدر انڈیا سے چمکا۔ اس فلم میں سنیل دت نے نرگس کے چھوٹے بیٹے کا منفی کردار ادا کیا تھا۔
EPAPER
Updated: June 06, 2024, 1:01 PM IST | Mumbai
سنیل دت کی قسمت کا ستارہ ۱۹۵۷ء میں ریلیز فلم مدر انڈیا سے چمکا۔ اس فلم میں سنیل دت نے نرگس کے چھوٹے بیٹے کا منفی کردار ادا کیا تھا۔
بلراج رگھوناتھ دت عرف سنیل دت ۶؍جون۱۹۲۹ء کو، پاکستان کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن سے ہی اداکار بننے کے خواہش مند تھے۔ سنیل دت کو اپنے کریئر کے ابتدائی دور میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی گزارنے کیلئے انہوں نے بس ڈپو میں چیکنگ کلرک کے طور پر کام کیا جہاں انہیں ۱۲۰؍ روپے ماہانہ اجرت ملتی تھی۔ اس درمیان انہوں نے ریڈیو سلون میں بھی کام کیا جہاں وہ فلمی اداکاروں کا انٹرویو لیا کرتے تھے۔ ہر انٹرویو کیلئے انہیں ۲۵؍ روپے ملتے تھے۔ سنیل دت نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز۱۹۵۵ءکی فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ سے کیا۔ ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۷ء تک وہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ ’ریلوے پلیٹ فارم‘ کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا اسے وہ قبول کرتے چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے کندن، راجدھانی، قسمت کا کھیل اور پائل جیسی کئی بی گریڈ فلموں میں کام کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوسکی۔ سنیل دت کی قسمت کا ستارہ ۱۹۵۷ء میں ریلیز فلم مدر انڈیا سے چمکا۔ اس فلم میں سنیل دت نے نرگس کے چھوٹے بیٹے کا منفی کردار ادا کیا تھا۔ کریئر کے ابتدائی دور میں منفی کردار ادا کرنا کسی بھی نئے اداکار کے لئے چیلنج سے بھر پور ہوتا ہے۔
مد ر انڈیا نے سنیل دت کے فلمی کیرئر کے ساتھ ہی ان کی ذاتی زندگی پر بہت اثر ڈالا۔ اس فلم میں انہوں نے نرگس کے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم شوٹنگ کے دوران نرگس ایک سین میں آگ کی لپیٹ میں آگئی تھیں اور ان کی زندگی خطرہ میں پڑ گئی تھی۔ اس وقت سنیل دت اپنی جان کی پروا کئے بغیر آگ میں کود گئے اور نرگس کو آگ کی لپٹوں سے بچالیا۔ اس درمیان سنیل دت اور نرگس دونوں کی آگ کی لپٹوں سے کافی جل گئے تھے۔ دونوں کواسپتال میں داخل کرایا گیا ۔ صحت یاب ہوئے تو دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نےبطور سیاستداں نمایاں خدمات انجام دی تھیں ۔ اس سلسلے میں مشہور شاعر اورنغمہ نگار جاوید اختر نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے سنیل دت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ سیاستداں سے زیادہ سماجی خدمت گار تھے۔ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ وہ سرحدوں پر جا کر وہ فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔
یش چوپڑہ نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ جن سے وہ سنیل دت جیسی شخصیت کی تعریف کر سکیں۔ وہ ایک اچھے دوست اچھے باپ تھے۔ انہوں نے کبھی غلط باتوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مدر انڈیا میں اینگری ینگ مین کا کردار نبھایا تو پڑوسن میں مزاحیہ کردار جبکہ ریشماں اور شیرا میں ڈاکو کا کردار ادا کیا، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمہ جہت فنکار تھے۔
انہوں نے جو فلمیں بھی بنائیں ان سے وہ سماج کے اندر پھیلی برائیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے اس لئے جہیز مخالف فلم ’یہ آگ کب بجھے گی‘ اور کینسر پر ’درد کا رشتہ‘ فلم بنائی۔ انہیں ذات پات پر یقین نہیں تھا۔ مذہب اور ذات پات کی تفریق سے ا وپراٹھ کر انہوں نے کام کیا، اس لئے دنیا انہیں کبھی بھول نہیں سکتی۔ انسان مر جاتا ہے لیکن انسانیت اور ایک فنکار کبھی نہیں مرتا۔ سنیل دت کا فلمی سفر ریلوے پلیٹ فارم سے شروع ہوا تھا اور ان کی آخری فلم منا بھائی ایم بی بی ایس تھی۔ بالی ووڈ میں اپنی ایک منفرد شناخت بنانے والے سنیل دت ۲۵؍ مئی۲۰۰۵ء کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔