شام میں خانہ جنگی سے تباہ حال ماریت النعمان شہر جو کسی زمانے میں ایک لاکھ افراد کا مسکن ہوا کرتا تھا، شہری دوبارہ لوٹنے لگے ہیں، حالانکہ انہیں بارودی سرنگوں اور غیر پھٹے ہوئے گولے اور بم کا خطرہ ہے۔
EPAPER
Updated: December 18, 2024, 1:09 PM IST | Inquilab News Network | Damascus
شام میں خانہ جنگی سے تباہ حال ماریت النعمان شہر جو کسی زمانے میں ایک لاکھ افراد کا مسکن ہوا کرتا تھا، شہری دوبارہ لوٹنے لگے ہیں، حالانکہ انہیں بارودی سرنگوں اور غیر پھٹے ہوئے گولے اور بم کا خطرہ ہے۔
شام میں برسوں سے جاری خانہ جنگی میں تباہ شدہ شہر النعمان میں جابجا جنگ کے آثار نظر آتے ہیں۔ اب مکینوں کے لوٹنے سے دوبارہ آباد ہو رہا ہے۔ یہ شہر جو دوران جنگ خانہ جنگی کا مرکز تھا،رونق دوبارہ لوٹنے لگی ہے۔ بلال الریحانی نے اس ہفتے اپنی اہلیہ اور ۱۴؍سالہ بیٹے کے ساتھ مغربی قصبے میں اپنی پیسٹری کی دکان دوبارہ کھولی۔ ۴۵؍ سالہ بیکر برسوں کی جلاوطنی کے بعد بھی اپنے اردگرد کی تباہی کے باوجود اس شہر سے زیادہ دنوں تک دور نہیں رہ سکا۔ پانی اور بجلی کی قلت کے باوجود الائچی کی پیسٹری جو ۱۵۰؍ سال سے ان کے خاندان کی پہچان ہے تیار کرتے ہوئے گاہکوں میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔ تباہ شدہ کاریں اپنی آمد کا اعلان کرنے کیلئے ہارن بجا رہی ہیں۔ریحانی کی طرح، ان کے گاہک بھی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سابق رہائشی ہیں، جو اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں۔
ماریت النعمان شہر کی آبادی ایک لاکھ تھی، لیکن یہ شہر کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ،اسلام پسند باغی گروپ حیات تحریر الشام، جو ایک ہفتہ قبل طویل عرصے سے صدر بشار الاسد کو معزول کرنے کے بعد اب اقتدار میں ہے، نے ۲۰۱۷ء میں اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن ۲۰۲۰ءمیں، بشار الاسد کی افواج نے روسی فضائی حملوں کی مدد سے شدید لڑائی کے بعد قصبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا، جس کے سبب باقی ماندہ باشندوں کو ادلب میں نقل مکانی کرکے کیمپوں کی طرف بھاگنا پڑا۔جنگ نے ماریت النعمان کو بارودی سرنگوں اور غیر پھٹےگولے اور بم سے بھرا چھوڑ دیا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا گولان پہاڑیوں پر آبادکاری بڑھانے کا اعلان، عرب ممالک نے مذمت کی
حکام نے ابھی تک عوام کو دوبارہ لوٹنے کی ہدایات نہیں دیں، لیکن سفید ہیلمیٹ پہنے رضاکار ملبہ ہٹانے اور لاشوں کو نکالنے کا کام کر رہے ہیں۔ ایک جگہ سے انہوں نے چار لاشیں نکالیں، جسے مردہ خانے بھیج دیا گیا۔ان لاشوں کے بارے میں رضاکار نے بتایا کہ یہ بشار الاسد کے فوجیوں کی ہیں جو اپنے ہی عوام کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ شام کی خانہ جنگی، جو ۲۰۱۱ءمیں جمہوریت کے حامی مظاہروں پر وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں۵؍ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ایک ۵۰؍ سالہ پولیس افسر جہاد شاہین نے کہا کہ ’’اس محلے کو صاف کر دیا گیا ہے، اور ہم یہاں لوگوں اور ان کے سامان کی حفاظت کیلئے موجود ہیں، شہر میں سرگرمی واپس آ رہی ہے، اور ہم پہلے سے بہتر شہر دوبارہ تعمیر کریں گے۔‘‘
لیکن مقامی اہلکار کفاہ جعفر کے مطابق یہ ایک مشکل جنگ ہے،یہاں کوئی اسکول نہیں، کوئی بنیادی خدمات نہیں ہیں۔ ہم مدد کرنے کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں، لیکن شہر میں ہر چیز کی کمی ہے۔ جعفر، جس نے پہلے ادلب میں نقل مکانی کرنے والے کیمپ کا انتظام کیا تھا، اب رہائشیوں کی ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔اور ایک مکین ۳۰؍ سالہ احاب السیدکو روسی فضائی حملے میں دماغ میں شدید چوٹیں لگائیں جس کے لیے متعدد آپریشن کی ضرورت تھی نے کہا کہ ’’ یہاں کے لوگ سادہ ہیں، ہمیں صرف تحفظ کی ضرورت ہے، ہم محض پانچ دن قبل ہی اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کیلئے واپس آئے ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی سردی بڑھ جاتی ہے، لیکن ہم نے بشار الاسد سے جان چھڑائی ہے، اس سے ہمیں ہمت ملتی ہے۔‘‘