فلمی دُنیا میں جوڑیاں بنانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ دیومالائی فلموں سے جب ہندی سینما میں تاریخی اور سوشل کہانیوں پر مبنی فلموں کی ابتدا ہوئی اور فلموں کا معیار رفتہ رفتہ بہتر ہوتا گیا، تو اُسی کے ساتھ ہیرواورہیروئینوں کی جوڑیاں بننے کا رواج بھی شروع ہو گیا۔
دیو آنند اور ثریا کی جوڑی کافی مقبول رہی ہے۔ تصویر : آئی این این
فلمی دُنیا میں جوڑیاں بنانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ دیومالائی فلموں سے جب ہندی سینما میں تاریخی اور سوشل کہانیوں پر مبنی فلموں کی ابتدا ہوئی اور فلموں کا معیار رفتہ رفتہ بہتر ہوتا گیا، تو اُسی کے ساتھ ہیرواورہیروئینوں کی جوڑیاں بننے کا رواج بھی شروع ہو گیا۔
اس فہرست میں اشوک کمار اور دیویکا رانی، نجم الحسن اور ریحانہ، دلیپ کمار اور کامنی کوشل، راج کپور اور نرگس جیسی کئی مقبول جوڑیاں شامل ہیں۔ اس کے بعد امیتابھ بچن اور ریکھا، دھرمیندر اور ہیما مالنی، انل کپور اور مادھوری دکشت، شاہ رخ خان اور کاجول، عامر خان اورجوہی چاولہ کی جوڑیاں بھی کافی مشہور ہوئیں۔ فلم انڈسٹری میں اس طرح کی جوڑیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں دیوآنند اور ثریا کی فلمی جوڑی کو جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ بہت کم جوڑیوں کے نصیب میں آئی ہے۔ اِس مقبولیت کی ایک خاص وجہ ان کی گہری دوستی تھی۔ حالانکہ ان دونوں نےایک ساتھ بہت کم فلموں میں کام کیا مگر ان کی دوستی اور ان کے عشق کو جو مقبولیت ملی، اتنی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
ثریا کی دیوآنند سے پہلی ملاقات ۱۹۴۸ء میں فلم ’وِدیا‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی۔ جیت پروڈکشنز کے بینرتلے بننے والی اس فلم کے ہدایت کار گریش تریویدی اور موسیقار سچِن دیو برمن تھے۔ اُس زمانے میں ثریا شہرت کے آسمان پر تھیں اور اُن کی کئی فلمیں ’انمول گھڑی، عمر خیام، پروانہ اور کاجل‘ وغیرہ سُپر ہِٹ ہو چکی تھیں جبکہ تب تک دیوآنند کی صرف چار فلمیں ہی ریلیز ہوئی تھیں۔ ثریا پر ہالی ووڈ کے سُپر اسٹار گریگری پیک کی شخصیت کا بڑا اثر تھا اور وہ گریگری پیک کی مداح تھیں۔ ’ودیا‘ کے سیٹ ہی پر ثریا نے دیوآنند سے کہا تھا کہ ’’تمہاری شخصیت گریگری پیک سے بہت ملتی جلتی ہے۔ ‘‘ ثریا کی بات کا دیوآنند پر کچھ ایسا جادو ہوا کہ اُنہوں نے اُسی انداز کے کپڑے پہننے شروع کر دیئے، اُسی انداز میں بات چیت شروع کر دی اور یہاں تک کہ اُن کی اداکاری میں بھی گریگری پیک کے انداز کی جھلک نظر آنے لگی۔ اِس بات سے ثریا کو بھی بڑا سکون ملتا تھا اور اس طرح دونوں کی دوستی رفتہ رفتہ مستحکم ہوتی گئی۔
ثریا اور دیوآنند نے دھرمیندر اور ہیما مالینی کی طرح بہت سی فلمیں تو ایک ساتھ نہیں کیں لیکن جو۸۔ ۷؍ فلمیں اُنہوں نے ایک ساتھ کیں، اُن میں دونوں کی جوڑی خوب جمی ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ’ودیا‘ سے پہلے ثریا نے جن اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا، وہ لگ بھگ سبھی ثریا سے عمر میں بڑے تھے، جیسے پرتھوی راج کپور، پریم ادیب، جے راج، پہاڑی سنیال، کےایل سہگل، یعقوب، صادق علی، واستی اور موتی لال وغیرہ۔ دیوآنند اُن دِنوں فلموں میں نئے نئے آئے تھے اور ’ودیا‘کی شوٹنگ شروع ہونے پر وہ سہمے سہمے سے رہتے تھے کیوں کہ ثریا اُس وقت ایک سُپر اسٹار بن چکی تھیں اور اُن کی ایک جھلک پانے کیلئے اُن کے بنگلے کے سامنے اُن کے مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ’ودیا‘ کے ہدایت کار کے کہنے ہی پر ثریا نے کچھ دوستانا ماحول میں دیوآنند سے بات چیت شروع کی تھی۔ جو دھیرے دھیرے دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔
’ودیا‘ کی شوٹنگ کے دوران ہی ایک بارناؤ پر ایک منظر فلمایا جارہا تھا۔ شاٹ کے درمیان ہی میں اچانک نائو ایک طرف کو جھک گئی اور ثریا پانی میں گِر گئیں۔ وہ تیرنا نہیں جانتی تھی مگر دیوآنند نے فوراً پانی میں کود کر ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ بعد میں ثریا نے دیوآنند سے کہا کہ ’’اگر آج تم وہاں پر نہ ہوتے، تو میں ڈوب کر مر جاتی۔ ‘‘ اِس پر دیو صاحب نے جواب دیا کہ ’’پھر میں بھی کہاں زندہ رہتا۔ ‘‘
اس حادثے کے بعد اُن کا عشق اور زیادہ پروان چڑھا اور اس کی بھنک ثریا کی نانی کو لگ گئی۔ ثریا کی تمام دیکھ بھال اُن کی نانی ہی کرتی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ثریا اپنی نانی سے ڈرتی بھی بہت تھیں۔ نانی کو دونوں کا ملنا جلنا پسند نہیں تھا، اِسلئے انہوں نے اُن دونوں پر پہرا لگا دیا۔
’ودیا‘ کے بعد اگلے ہی سال ۱۹۴۹ء میں دیوآنند اور ثریا کی ایک اور فلم’جیت‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے ہدایت کار موہن شرما تھے اور موسیقی کے فرائض انل بسواس نے ادا کئے تھے۔ اس فلم میں بھی فلم بینوں نےدونوں کی جوڑی بہت پسند آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے عشق کے چرچے فلمی رسائل کی سرخیاں بننے لگیں۔ ایک بار ’جیت‘ کی شوٹنگ ایک لائبریری میں ہو رہی تھی۔ شاٹ سے الگ ثریا اور دیو کا ملنا جلنا بند تھا۔ اسلئے دونوں نے لائبریری کی کتابوں میں خطوط رکھ کر ایک دوسرے کو دیئے۔ ان کے خطوطکے لین دین میں ایس ڈی برمن، دُرگا کھوٹے، گرودت اور دوارکا ڈویچا نے بھی مدد کی۔ ایک بار دیو آنند نے قرض لے کر ثریا کیلئے ہیرے کی ایک انگوٹھی خریدی۔ ثریا وہ انگوٹھی اپنے پرس میں رکھ کر بھول گئیں۔ نانی نے وہ انگوٹھی دیکھ لی اور غصے میں سمندر میں پھینک دیں۔ دیو آنند کو جب اس واقعے کا پتہ چلا تو وہ بہت روئے تھے۔
۱۹۴۹ء میں ہی ثریا اور دیوآنند کی ایک فلم ’شاعر‘ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ جگت پکچرز کی اس فلم کے ہدایت کار چائولا تھے۔ فلم کی موسیقی غلام محمد نے ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں بھی ثریا اور دیوآنند کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اُنہی دنوں ثریا اور دیوآنند نے ایک بار شوٹنگ کے دوران ہی کہیں نِکل بھاگنے کا پروگرام بنالیا، لیکن اس کی بھنک کسی طرح نانی کو لگ گئی۔ اس کے بعد وہ ثریا کو لگ بھگ گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئیں۔ اُس وقت نانی نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ثریا نے دیو سے ملنا جلنا بند نہیں کیا تو وہ دیو کو گرفتار کروا دیں گی۔ ۱۹۵۰ء میں ثریا اور دیوآنند کی فلم ’افسر‘ ریلیز ہوئی۔
دیو آنند نے جب ثریا کے سامنے شادی کی پیشکش رکھی تو انہوں نے نانی کے ڈر سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ دوسرے، دیوآنند کی شرط یہ بھی تھی کہ شادی کے بعد ثریا کو فلموں میں کام کرنا بند کر دینا ہوگا جبکہ ثریا اُس وقت بھی نہ صرف اداکارہ کے طور پر بلکہ پلے بیک گلوکارہ کے طور پر بھی چوٹی پر تھیں۔ ۱۹۵۰ء میں ہی دیوآنند کے ساتھ ہی ثریا کی ایک اور فلم ’نیلی‘ بھی ریلیز ہوئی۔ رنجیت مووی ٹون کی اس فلم کے ہدایت کار رتی لال ہیم چند پُناتر تھے اور موسیقی ایس موہندر کی تھی۔ اس طرح ایک ہی سال میں دو فلموں ’افسر‘ اور ’نیلی‘ کی نمائش نے اِس جوڑی کو اور بھی کامیابی دلائی اور اُن کی مقبولیت میں بھی چار چاند لگ گئے۔ اگلے ہی برس ۱۹۵۱ء میں فیمس پکچرس نے اس جوڑی کی ایک بار اور کامیاب فلم ’دو ستارے‘ کی نمائش کی۔ دیوآنند اور ثریا کی جوڑی اس زمانے میں اسلئے بھی کامیاب رہی کہ ثریا اپنے گیت خود ہی گاتی تھیں اور وہ ایک کامیاب پلے بیک سنگر تھیں۔
اِسی برس ۱۹۵۱ء میں دیوآنند اور ثریا کی ایک ساتھ آخری فلم ’صنم‘ کی نمائش ہوئی۔ یونائیٹڈ ٹیکنی شینس کی اس فلم کی ہدایت نند لال جسونت لال نے دی تھی۔ اس فلم کے موسیقار حُسن لال بھگت رام تھے اور نغمے قمر جلال آبادی نے لکھے تھے۔ ثریا اور دیوآنند کی کامیاب جوڑی کے علاوہ اس فلم میں مینا کماری، گوپ، کے این سنگھ، پرتیما دیوی اور جِلّو بائی نے بھی اداکاری کی تھی۔ اِس کامیاب جوڑی کی اس آخری فلم ’صنم‘ کو بھی فلم بینوں نے خوب سراہا اور اِس جوڑی کو پسند کیا لیکن نانی کی پابندیاں، پریس کا دبائو، اور کریئر کے درمیان میں آنے کی وجہ سے ایک طرف تو ثریا اور دیوآنند چاہتے ہوئے بھی شادی نہ کر سکے، دوسرے اُنہوں نے ایک ساتھ فلموں میں کام کرنا بھی بند کر دیا۔ کچھ فلمسازوں کو یہ خوف بھی لگا کہ کب اِن دونوں میں کوئی بڑا جھگڑا ہوجائے اور اُس کی فلم کھٹائی میں پڑ جائے۔ اِدھر دیوآنند کو ۱۹۵۴ء میں فلم ’ٹیکسی ڈرایئور‘ کے ذریعہ ایک نئی اداکارہ مونا سنگھ مل گئی جو بعد میں کلپنا کارتک کے نام سے پہچانی گئی اور دیوآنند نے کلپنا کارتک کے ساتھ شادی کر لی۔ ۲۰۰۴ء میں جب ثریا کا انتقال ہوا تو دیوآنند نے اپنے آپ کو میڈیا کی نظروں سے بچانے کیلئے گھر تک محدود کرلیا تھا۔ دیوآنند کیلئے ثریا کا پیار ۱۹۹۶ء میں بھی اُتنا ہی شدید تھا، جب ثریا کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ لینے کیلئے پروگرام میں بلاگیا تو یہ کہہ کر بلایاگیا کہ دیوآنند بھی پروگرام میں آرہے ہیں مگر دیو آنند نے یہ کہتے ہوئے منتظمین سے معافی مانگ لی کہ وہ اپنی پہلی محبت کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ دیوآنند کے نہ آنے پر ثریا اُس رپورٹر پر بہت ناراض ہوئیں، جس نے اُن سے جھوٹ بولا تھا۔ ۲۰۰۴ء کی ۳۱؍جنوری کو ۷۵؍ برس کی عمر میں ثریا کا اور ۲۰۱۱ء میں دیوآنند کا انتقال ہو گیا۔ اب وہ دونوں نہیں ہیں لیکن جب بھی فلمی جوڑیوں کی تاریخ لکھی جائے گی، تو ثریا اور دیوآنند کی جوڑی کو بھُلایا نہیں جا سکے گا۔