• Sun, 17 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قاہرہ فلم فیسٹیول میں فلسطینی تھیم چھائی رہی، فلم پاسنگ ڈریمز کی خوب پذیرائی

Updated: November 16, 2024, 2:14 PM IST | Inquilab News Network | Cairo

فلم کی کہانی ۱۲ سالہ سمیع، اس کے چچا اور کزن کے گرد گھومتی ہے جو سمیع کے گمشدہ کبوتر کی تلاش میں روڈ ٹرپ پر نکل پڑتے ہیں۔ یہ سفر انہیں فلسطین کے تاریخی مقامات یروشلم اور حیفہ لے جاتا ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

قاہرہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں فلسطینی تھیم کے تحت پیش کی گئی فلسطینی ہدایت کار رشید مشھراوی کی فلم ’’پاسنگ ڈریمز‘‘، اپنی شناخت اور گھر کے طرف علامتی سفر کی کہانی کے ذریعہ فلم شائقین کو مسحور کرنے میں کامیاب رہی۔ فلم فیسٹیول میں غزہ سے آئے ایک گروپ نے روایتی دبکیہ بھی پیش کیا جس نے نمائش کی جانے والی فلموں کی گہری ثقافتی جڑوں کو نمایاں کیا۔ ’’پاسنگ ڈریمز‘‘ کے پریمیئر کے ساتھ فلم فیسٹیول کا آغاز  ہوا۔ فلم کی کہانی ۱۲ سالہ سمیع، اس کے چچا اور کزن کے گرد گھومتی ہے جو سمیع کے گمشدہ کبوتر کی تلاش میں روڈ ٹرپ پر نکل پڑتے ہیں۔ یہ سفر انہیں فلسطین کے تاریخی مقامات یروشلم اور حیفہ لے جاتا ہے۔ سمیع اپنے پالتو کبوتر کا پیچھا کرنا چاہتا ہے جو اپنی جائے پیدائش کی طرف گامزن ہے۔ فلم کی کہانی میں  علامتی طور پر ۱۹۴۸ء کے نکبہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عراق: معروف موصل مینار کی تعمیر مکمل ہونے میں مزید چند ماہ

فلم کے مرکزی کردار، اپنی روڈ ٹرپ کے دوران فلسطینی تاریخ کے اہم مقامات سے گزرتے ہیں۔ اس علامتی سفر کے ذریعے مشاروی نے ایک ایسی داستان تخلیق کی ہے جو نقل مکانی کے دوران اپنے تعلق اور شناخت کی تاحال جاری تلاش اور فلسطینی تجربہ کو علامتی انداز میں بیان کرتی ہے۔ پاسنگ ڈریمز کے ساتھ، مشاروی نے "فرام گراؤنڈ زیرو" بھی پیش کیا جو غزہ سے تعلق رکھنے والے فلم سازوں کی ۲۲ مختصر فلموں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد تنازعات سے گھری زندگی کا ایک فلمی نقطہ نظر فراہم کرنا ہے، جس سے بین الاقوامی شائقین اور مقبوضہ فلسطین کے زمینی مشاہدوں کے درمیان فاصلہ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: آئسکریم کے’’بین اینڈ جیری‘‘ برانڈ کا پیرنٹ کمپنی یونی لیور کیخلاف مقدمہ

غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والے ۶۲ سالہ ہدایت کار نے اسرائیلی قبضہ، نقل و حرکت کی پابندیوں اور اجازت ناموں کی کمی جیسی کافی رکاوٹوں پر قابو پا لیا ہے جو فلم سازی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ اپنی گفتگو میں، انہوں نے فلسطینی سنیما کے رجعت پسندی کے بجائے فعال بننے کی ضرورت پر زور دیا اور ایسی فلمیں بنانے کی اپیل کیا جو تنازعات کے ردعمل سے ہٹ کر فلسطینیوں کے نقطہ نظر کا اظہار کریں۔ مشراوی، طویل عرصہ سے اپنی فلموں کے ذریعہ تاریخی اور عصری فلسطینی جدوجہد کو ریکارڈ کر رہےہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ فوجی تقریر کے مقابلے، سنیما، بہتر انداز میں فلسطینی سرزمین کا دفاع کرتا ہے۔  اس سال، قاہرہ فلم فیسٹیول کے منتظمین نے فلسطینی سنیما کے لئے بھرپور حمایت اور غزہ اور لبنان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے تحت فلسطینی تھیم والی فلمیں پیش کی گئیں اور فیسٹیول کی مختلف تقریبات میں فلسطینی ورثہ پر فخرجتایا گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK