• Sun, 05 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کشور کمار نے اپنے گانے خود گانے والے ہیرو کے طور پر جو مقام بنا لیا تھا

Updated: September 22, 2024, 1:30 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں اداکاری میں زیادہ مہارت حاصل تھی یا گلوکاری میں؟ لیکن یہ سچ ہے کہ وہ دونوں ہی شعبوں میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ بطور موسیقار، ہدایتکار، اسکرپٹ رائٹر، ڈانس ڈائریکٹر، فوٹوگرافر، نغمہ نگار اور فلمساز بھی وہ اپنی دھاک جمانے میں کامیاب رہے۔

In real life Kishore Kumar`s queen of hearts Madhubala has worked with him in several films. Photo: INN
حقیقی زندگی میں کشور کمار کے دلوں کی ملکہ مدھوبالا نے ان کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

کشور کمار کے والد کنج بہاری گانگولی کھنڈوا (مدھیہ پردیش) کے مقبول بیرسٹر تھے۔ ۴؍اگست ۱۹۲۹ء کو کشور کمار کا جنم کھنڈوا میں ہوا تھا۔ اُن کا اصل نام آبھاس کمار گانگولی تھا۔ کشور کمار اپنے کل چار بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ سب سے پہلے ان کے سب سے بڑے بھائی اشوک کمار کو ہندوستانی سنیما میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ اُن کے بہنوئی ایس مکھرجی اُن دِنوں ممبئی ٹاکیز کے کرتا دھرتائوں میں سے ایک تھے لہٰذا اُن دونوں کے تعلقات کی وجہ سے ہی کشور کمار کو بھی فلموں میں آنے کا موقع ملا۔ 
 کشور کمار کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا اور وہ کے ایل سہگل کو دیوانگی کی حد تک پسند کرتے تھے۔ یہی دیوانہ پن اُن کو بمبئی لے آیا تھا۔ اُن دِنوں ہر طرف سہگل کے ہی چرچے تھے۔ بمبئی آکر سب سے پہلے کشور کمار نے سہگل سے ملاقات کی اور اُن کو اپنی آواز میں ایک گانا سنایا اور ان کے سامنے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اُنہی کی طرح مشہور گلوکار بننا چاہتے ہیں۔ کےایل سہگل اُس نوجوان کی لگن اور جادو بھری آواز سے متاثر ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے کشور کمار کو کچھ مشورے دیئے جن میں سے ایک یہ تھا کہگانا گاتے وقت اپنے جسم کو بے حرکت رکھا کریں، اس طرح سامعین کا دھیان گانے ہی پر رہے گا۔ دُوسری بات یہ کہ گاتے وقت چہرے پر ہمیشہ سکون بنائے رکھیں۔ سہگل کا یہ مشورہ اُس وقت کشور کمار نے گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر حتی الامکان عمل بھی کیا۔ 
 بطور اداکار کشور کمار کی پہلی فلم ’آندولن‘ تھی لیکن بطور گلوکار کشور کمار کی پہلی فلم بمبئی ٹاکیز کیلئے بنائی گئی شاہد لطیف کی فلم ’ضدی‘ تھی۔ اس فلم میں کشور کمار کا گایا ہوا گانا ’’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں ‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد وقت کے ساتھ ہی فلمی دُنیا میں کشور کمار کے قدم جمنے لگے۔ انہوں نے بطور اداکار اور گلوکاربہت کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے اپنی فلموں کی فلمسازی بھی کی۔ ’دور گگن کی چھائوں میں، دُور کا راہی، جھمرو، چلتی کا نام گاڑی، ہم سب ڈاکو اوربڑھتی کا نام داڑھی‘ وغیرہ فلموں میں کشور کمار نے زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ فلم ’چلتی کا نام گاڑی‘ میں اشوک کمار، انوپ کمار اور کشور کمار، اِن تینوں سگے بھائیوں نے اچھی کامیڈی پیش کی ہے۔ کشور کمار نے اپنی فلموں کو کبھی بھی سنجیدگی سے ریلیز کرنے کی طرف توجہ نہیں دی، یا شاید کشور کمار کے مالی مشیروں نے خسارہ دکھانے اور ٹیکس بچانے کے مقصد ہی سے اُن سے فلمیں بنوائیں۔ 
 کشور کمار نے اپنے گانے خود گانے والے ہیرو کے طور پر جو مقام بنا لیا تھا، وہ اُس دور میں کسی دوسرے اداکار کے حصے میں نہیں آیاتھا۔ ’نئی دلی، بندی، بھائی بھائی، شرارت، مسافر اورآشا ‘ جیسی فلمیں آج بھی کشور کمار کی وجہ سے یاد کی جاتی ہیں۔ فلمساز ایم وی رمن کی فلم ’لڑکی‘ اور ’بہار‘ خود کشور کمار کو بے حد پسند تھیں۔ 
 کشور کمار نے چار شادیاں کیں۔ پہلی بیوی روما دیوی سے ایک لڑکا اجیت کمار ہے، جو خود بھی گلوکار ہے۔ روما دیوی سے طلاق کے بعدانہوں نے سلور اسکرین کی وینس مدھوبالا سے شادی کرلی، لیکن شادی کے بعد مدھوبالا زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہ سکیں۔ مدھوبالا کی موت کے بعد کشور کمار نے اداکارہ یوگیتا بالی سے شادی کی، لیکن دونوں میں زیادہ دِنوں تک بن نہیں پائی اور جلد ہی ان کا طلاق ہو گیا۔ کشور کمار کی چوتھی بیوی اداکارہ لینا چندراورکر تھیں۔ ان سے بھی ایک لڑکا ہے۔ اس کے علاوہ کشور کمار اور اداکارہ سلکشنا پنڈت کے درمیان کافی عرصے تک رومانس کا دور چلا۔ دونوں کے شادی جیسے مقدس رشتے میں بندھنے کی خبر آنے ہی والی تھی مگر دونوں کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ 
 اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کشور کمار کو اداکاری میں زیادہ مہارت حاصل تھی یا گلوکاری میں ؟ لیکن یہ قبول کرنا پڑے گا کہ کشور کمار میں بے شمار صلاحیتیں تھیں۔ اداکاری اور گلوکاری کے ساتھ ہی بطور موسیقار، ہدایتکار، اسکرپٹ رائٹر، ڈانس ڈائریکٹر، فوٹوگرافر، نغمہ نگار اور فلمساز کے بھی انہوں نے کامیابی اور مقبولیت حاصل کی۔ فلمسازی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں تھا جس سے کشور کمار کو دلچسپی نہ رہی ہو یا جس سے اُن کا تعلق نہ رہا ہو۔ 
 کشور کمار کے ہم عصر گلوکاروں میں محمد رفیع اور مکیش سب سے زیادہ مقبول تھے۔ زندگی سے ان دونوں فنکاروں کا بہت دنوں کاساتھ نہیں رہا۔ دونوں بالترتیب ۵۵؍ اور ۵۳؍ سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ محمدرفیع اور مکیش کی طرح کشور کمار کی موت بھی دل کا دَورہ پڑنے سے ہوئی۔ کشور کمار کی زندہ دلی، سچ بولنے کی عادت اور ہنسی مذاق میں ڈوبی شخصیت کی داستانوں کے ساتھ ہی کئی دلچسپ واقعات بھی مشہور ہیں۔ جب بھی کشور کمار کو اُن کی مرضی کے خلاف کام کرنے کیلئے مجبور کیا گیا، تو دماغ سے زیادہ دل کی بات ماننے والے کشور کمار نے کسی بھی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ اس کا انہیں کئی بارخمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ایمرجنسی کے وقت کی بات ہے۔ اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات وی سی شکلا نے ناراض ہوکر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کشور کمار کے گانوں پر پابندی لگا دی تھی مگر اس پابندی کے باوجود کشور کمار کی شہرت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ 
 یہ بات بھی یہاں بتانی ضروری ہے کہ کشور کمار نے کامیڈی گانوں کے ساتھ ہی دلوں کو چھو لینے والے جو غمگین نغمے فلمی دنیا کو دیئے ہیں، وہ بھی کافی پسند کئے گئے ہیں۔ ان نغموں کو بھی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکے گا۔ 
میرے نینا ساون بھادو، پھر بھی میرا من پیاسا
 (فلم: محبوبہ، ۱۹۷۶ء)
بیقرار دل.... تو گائے گا (فلم: دُور کا راہی، ۱۹۷۱ء)
جیون کے سفر میں راہی، ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
 (فلم: منیم جی، ۱۹۵۵ء)
میرے محبوب قیامت ہوگی، آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی (فلم: مسٹر ایکس اِن بامبے، ۱۹۶۴ء)
 یہ کچھ ایسے نغمے ہیں جو آج بھی دل کے تاروں کو جھنجھوڑکر رکھ دیتے ہیں۔ 
 حالانکہ بہت کم موسیقار ایسے ہوں گے جن کی بنائی دھنوں پر کشور کمار نے اپنی شیریں آواز کا جادو نہ بکھیرا ہو۔ معروف موسیقار نوشاد علی نے ایک یا دو گانے ہی کشور کمار سے گوائے ہیں۔ اسی طرح موسیقار او پی نیّر نے بھی شاید ہی کبھی کشور کمار کی شیریں آواز کا فائدہ اُٹھایا ہو۔ کشور کمار نے تقریباً تمام مقبول ومشہور پلے بیک گلوکاروں کے ساتھ دوگانے بھی گائے ہیں۔ شمشاد بیگم، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، سمن کلیان پور اور سلکشنا پنڈت وغیرہ کے ساتھ کشور کمار کے دوگانےکافی مقبول ہو ئےہیں۔ کشور کمار نے تقریباً چار دہائیوں تک فلمی دُنیا میں اپنا ایک خاص مقام بنائے رکھا۔ کشور کمار کے چلے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے فلمی موسیقی کی ایک صدی کا خاتمہ ہو گیا۔ محمدرفیع اور مکیش کی موت کے بعد فلمی دنیا میں جو ایک خلاء پیدا ہو گیا تھا، کشور کمار نے اپنی جادو بھری آواز سے اُسے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن کشور کمار کی موت سے جیسے سب کچھ ختم سا ہو گیا۔ 
  موت کے ہاتھوں سے کوئی نہیں بچ پاتا اور کشور کمار کو تو موت کا ذاتی تجربہ تھا۔ کشور کمار نے تو موت کو بڑے نزدیک سے دیکھا تھا۔ کشور کمار نے مدھوبالا کو اپنی آغوش میں موت کی نیند سوتے دیکھا تھا۔ تب ہی سے کشور کمار کو دو باتیں ستا رہی تھیں۔ ایک تو موت کا احساس اور دوسرے تنہائی اور اکیلا پن۔ اتنی زیادہ شہرت، بھرپور خاندان اور موسیقی سے بھرے ہوئے ماحول کے باوجود کشور کمار نے خود کو ہمیشہ اکیلا ہی محسوس کیا۔ اسی اکیلے پن کی جھلک کشور کمار کے کئی گیتوں میں بھی ملتی ہے۔ یہ موت کا احساس ہی تھا جسے کشور کمار نے اپنے اکیلے پن کا علاج سمجھ رکھا تھا۔ موت سے بے حد لگائو تھا کشور کمار کو۔ اسی لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کشور کمار کو موت پر جتنا اعتبار تھا، اُتنا زندگی پر نہیں تھا۔ 
 گلوکار آئیں گے اور چلے جائیں گے، لیکن موسیقی کو، خاص طور پر ہندوستانی فلمی موسیقی کو کشور کمار نے جو کچھ دیا ہے، وہ شاید ہی اب کوئی دوسرا دے پائے۔ کشور کمار کی موت سے فلمی موسیقی کے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۸۷ء کو فلمی موسیقی کی یہ شمع ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK