یہاں ایک سے ایک نامی گرامی فنکار ہوئے لیکن محمد رفیع کے فن کی طرح ان کے کردار کو بھی کوئی چھو نہیں سکا۔ ستاروں کی چمک دمک، مقبولیت و شہرت اور رعب ودبدبے کو انہوں نے اپنے اخلاق سے زیر کر رکھا تھا۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 12:46 PM IST | Nadir | Mumbai
یہاں ایک سے ایک نامی گرامی فنکار ہوئے لیکن محمد رفیع کے فن کی طرح ان کے کردار کو بھی کوئی چھو نہیں سکا۔ ستاروں کی چمک دمک، مقبولیت و شہرت اور رعب ودبدبے کو انہوں نے اپنے اخلاق سے زیر کر رکھا تھا۔
کامیابی بہت سے لوگوں کو مل جاتی ہے لیکن عظمت چنند ہ لوگوں کونصیب ہوتی ہے ۔ آپ لاکھ محنت اور صلاحیت کو کسی فنکار کے عروج کا سبب قرار دیں لیکن لاثانی مقام حاصل کرنے میں فنکار کے ذاتی اوصاف کا بھی عمل ودخل ہوتا ہے۔ کم از کم محمد رفیع کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے۔ فلمی دنیا نے ان جیسا گلوکار نہیں دیکھا تو پھر ان جیسا انسان بھی کبھی نہیں دیکھا۔ حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے کامیڈین جونیئرمحمود نے ایک بار کہا تھا ’’میں اس لائق نہیں ہوں کہ رفیع صاحب کے تعلق سے کچھ کہہ سکوں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ جو بھی تھے ہم اور آپ جیسے عام انسان نہیں تھے۔‘‘
یہ محض ایک رسمی فقرہ نہیں ہے بلکہ محمد رفیع کی شخصیت کا مختصرترین مگر جامع تعارف ہے۔ آپ کسی بھی ایسے شخص سے بات کیجئے جس نے محمد رفیع کے ساتھ کام کیا ہو یا کم از کم ایک بار زندگی میں رفیع صاحب سے ملاقات کی ہو۔ اس کے پاس رفیع صاحب کی عظمت بیان کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوگا۔ معروف گلوکارہ کویتا کرشنا مورتی کا کوئی گیت محمد رفیع کے ساتھ کسی ریکارڈ یا کسی فلم میں سنائی نہیں دیا لیکن انہوں نے فلموں میں باقاعدہ بریک ملنے کے سے قبل کئی گیت نامور گلوکاروں کے ساتھ گائے ہیں۔ اس وقت عام طور پر یہ چلن تھا کہ کسی بڑے گلوکار کی تاریخ نہ مل سکے تو کسی ایسے گلوکار کی آواز میں گیت ریکارڈ کروا لیا جاتا تھا جو با صلاحیت ہو اور کام کی تلاش میں ہو تاکہ شوٹنگ نہ رکے۔ بعد میں جب وہ ’بڑا گلوکار‘ فرصت پا لے تو اس کی آواز میں گانے کو دوبارہ ڈب کرکے فلم میں شامل کر لیا جاتا تھا۔ کویتا کرشنا مورتی نے ایسے کئی گیت گائے ہیں جس پر اداکارائوں نے ہونٹ ہلائے ہیں لیکن فلم میں ان کی آواز سنائی نہیں دی۔
ایسے ہی ایک گیت کی ریکارڈنگ تھی۔ محمد رفیع کو پورا گیت گانا تھا۔ گانا ختم ہونے پر کویتا کرشنا مورتی کو صرف ایک لائن گانی تھی۔ وہ لائن بھی بعد میں لتا منگیشکر کی آواز میں ڈب ہونے والی تھی۔ یعنی کویتا کرشنا مورتی کی بطور گلوکارہ اس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی۔ کویتا اسٹوڈیو میں ایک کرسی پر بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں کہ رفیع صاحب اپنا گانا ختم کر لیں تو وہ مائیک پر جا کر اپنے حصے کے بول گائیں اور گانا مکمل کریں ۔ لیکن دِقت یہ تھی کہ رفیع صاحب بار بار گیت کے الفاظ بھول جاتے تھے جس کی وجہ سے ری ٹیک (دوبارہ گانا) کرنا پڑتا۔جب ۳؍ سے ۴؍ مرتبہ ایسا ہوا تو رفیع صاحب کویتا کی طرف مڑے اور اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے’’ معافی چاہتا ہوں ، میری وجہ سے آپ کو انتظار کرنا پڑ رہا ہے ، میں ابھی جلدی سے ختم کر لیتا ہوں ۔ پھر آپ گا لیجئے!‘‘ کویتا کرشنا مورتی کہتی ہیں ’’پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ اتنا عظیم گلوکارایک لڑکی کے سامنے جو کہ کچھ بھی نہیں ہے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور اتنی انکساری سے معافی مانگ رہا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں ’’یہ میرے لئے ایک ناممکن سا لمحہ تھا۔ آج بھی جب میں اس واقعے کو یاد کرتی ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘
فلم انڈسٹری میں اور بھی کئی عظیم گلوکار گزرے ہیں جن کے قصے مشہور ہیں کہ کیسے انہوں نے پروڈیوسروں کو انتظار کروایا اور کس طرح موسیقاروں کو اپنے دروازے کے دھکے کھلوائے۔ ان قصوں کے مقابلے جب کویتا کرشنا مورتی کا یہ واقعہ بیان کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیوں لوگ آج بھی محمد رفیع کی قبرپر جاتے ہیں اورکیوں وہاں روتے ہوئے پھول چڑھاتے ہیں۔
سپر اسٹار امیتابھ بچن نے ایک بار کہا تھا ’’ میں نے رفیع صاحب جیسا مہذ ب شخص فلمی دنیا میں کوئی اور نہیں دیکھا۔‘‘ وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آسام کے سلی گوڑی شہر میں ایک شو تھا جس میں کئی فلمی ستارے شریک تھے لیکن اس شو کی اصل کشش محمد رفیع اور ایک دوسرے گلوکار تھے ( جن کا نام امیتابھ نے دانستہ نہیں بتایا) ۲؍ روزہ پروگرام کے پہلے دن رفیع صاحب کو گانا تھا اور دوسرے دن وہ ’مشہور‘ گلوکار گانے والے تھے۔ میوزیکل شو میں اصل کام گلوکار ہی کا ہوتا ہے۔ پہلے دن رفیع صاحب نے اپنے حصے کے تمام گانے گا لئے اور وہاں سے ممبئی کیلئے روانہ ہو گئے۔ رفیع صاحب کے روانہ ہونے کے بعد ان ’گلوکار صاحب‘ کا فون آیا کہ دوسرے دن وہ نہیں آ رہے ہیں ۔منتظمین کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کیونکہ ٹکٹیں بک ہو چکی تھیں اور اشتہارات ہر طرف لگ چکے تھے۔آناً فاناً میں وہاں موجود لوگوں کو ایک ہی بات سوجھی کہ کسی طرح رفیع صاحب کو روک لیا جائے تاکہ دوسرے دن عزت رہ جائے۔ امیتابھ بچن بتاتے ہیں کہ’’ میں خود کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر اپنی کار کے ذریعے کئی کلو میٹر کا سفر طے کرکے سلی گوڑی ایئر پورٹ پہنچا۔ معلوم ہوا کہ رفیع صاحب طیارے میں بیٹھ چکے ہیں اور وہ بس اڑنے ہی والا ہے۔ ہم نےایئر پورٹ انتظامیہ سے التجا کی کہ ہمیں ایک بار رفیع صاحب سے مل لینے دیجئے۔بہت گڑگڑانے کے بعدصرف ۵؍ منٹ کا وقت دیا گیا کہ آپ رفیع صاحب سے مل لیں ۔‘‘ امیتابھ کے مطابق ’’ ہم طیارے میں پہنچے، رفیع صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں سارا معاملہ سنایا۔ انہوں نے پوری بات سنی اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے ساتھ طیارے سے نیچے اتر آئے۔‘‘
یہاں یہ بات یاد دلانی بے حد ضروری ہے کہ وہ گلوکار صاحب جنہوں نے ٹکٹیں بک ہوجانے کے باوجود منتظمین کے نقصان کی پروا نہ کرتےہوئے شو میں آنے سے انکار کر دیا، ان کا مقام (گلوکاری میں ) اس وقت بھی، آج بھی اور آئندہ بھی رفیع صاحب کے بعد ہی تھا، ہے اور رہے گا۔لیکن ظرف اور کردار کی یہ بلندی بھی صرف رفیع صاحب ہی کے پاس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی دنیا یا کسی رسمی پلیٹ فارم کے علاوہ کہیں اور آپ نے لوگوں کو کسی اور گلوکار کو اس احترام کے ساتھ یاد کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا جیسے رفیع صاحب کو یاد کیا جاتا ہے۔ لفظ ’صاحب‘ کی تعظیم صرف محمد رفیع کے نام کےساتھ ہی سنائی دیتی ہے اور کسی کے ساتھ نہیں ۔ پھر گفتگو کرنے والے چاہے پڑھے لکھے ٹیچر ہوں یا ناخواندہ رکشا ڈرائیور وہ انہیں ان کی عظمت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ دنیا کی سب سے آسان نیکی ہے کسی کی مالی مدد کرنا۔ آپ کے جیب میں یا اکائونٹ میں پیسے پڑے ہیں تو آپ نے نکال کر دیدیئے یا آپ فارغ البالی ہیں تو کسی کیلئے اپنا محنتانہ معاف کر دیا لیکن کسی کیلئے اپنا وقت نکالنا،اس کیلئے زحمت اٹھانا یہ بڑی قربانی ہے ۔ یہ قربانی عظیم ہو جاتی ہے جب ایسا کرتے وقت آپ اپنی ’انا‘ کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں جیسا کہ رفیع صاحب نے امیتابھ بچن والے واقعے میں کیا۔اسی طرح کا ایک واقعہ اور ہے جسے اداکار جتیندر بار بار دہراتے ہیں ۔
جتیندر نے ایک فلم بنائی تھی ’دیداریار‘ اس میں ایک گانا محمد رفیع اور کشور کمار نے ایک ساتھ گایا تھا۔ وہ کشور کمارکی (مارکیٹ میں ) بلندی کا زمانہ تھا۔ اس وقت وہ ایک گانے کے۲۰؍ ہزار روپے لیا کرتے تھے جبکہ رفیع صاحب کا معاوضہ صرف ۴؍ ہزار روپے تھا۔ گانے کی ریکارڈنگ کے بعد جتیندر کے اکائونٹنٹ نے ان سے پوچھا’ ’رفیع صاحب کو کتنے پیسے دینے ہیں ؟‘‘ جتیندر نے سوال کیا ’’ کشور دا کو کتنے دیئے ہیں ؟ ‘‘ جواب ملا ’’۲۰؍ ہزار روپے!‘‘ جتیندر نے کہا ’’رفیع صاحب کو بھی ۲۰؍ ہزار روپے دے دو۔‘‘ روپے کا لین دین اکائونٹنٹ اور سیکریٹری کے درمیان ہوتا ہے۔ رفیع صاحب کے سیکریٹری ظہیر کو پیسے مل گئےلیکن شام کو گھر پہنچنے پر جب رفیع صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے سیکریٹری کے ہاتھوں زائد رقم واپس بھیج دی اور جتیندر کو فون لگا کر کہا ’’تمہارے پاس پیسےزیادہ ہوگئے ہیں ؟‘‘ جتیندر نے کہا ’’کیوں ؟ کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ تم نے مجھے ۲۰؍ ہزار روپے دیئے ہیں جبکہ میری فیس ۴؍ ہزار روپے ہے۔ ۱۶؍ ہزار میں نے بھیج دیئے ہیں ، وہ لے لینا۔‘‘ یہاں اہم بات یہ نہیں ہے کہ رفیع صاحب نے اتنی بڑی رقم واپس کر دی بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کشور کمار کو ان سے ۵؍ گنا زیادہ معاوضہ مل رہا تھا، اس کا انہیں کوئی ملال نہیں تھا۔ حسد دور کی بات ہے، اس پر انہیں رشک بھی نہیں تھا۔جتیندر کہتے ہیں ’’یہ کام صرف ایک ’کلاکار ‘ ہی کر سکتا ہے جو اپنی ’کلا‘(فن) کیلئے جیتا ہے اور اسی کیلئے کام کرتا ہے۔‘‘جتیندر کا یہ جملہ ہے کہ ’’ میں جب تک زندہ ہوں یہ واقعہ سناتا رہوں گا۔‘‘ یہ بات بھی جتیندر ہی نے بیان کی ہے کہ ’’رفیع صاحب کے ایسے نغموں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو انہوں نے مفت گائے ہیں ۔‘‘ ان کے جان پہچان والوں کو اگر کوئی فلم مل جائے چاہے وہ ڈائریکٹر ہو،اداکار ہو، یا موسیقار ، اس کا پہلا گانا وہ مفت گایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں عظیم کامیڈین جگدیپ نے ایک واقعہ سنایا تھا ۔ انہوں نے ایک فلم بنائی تھی ’سورما بھوپالی‘ جو کافی تاخیر سے ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا پہلا گانا محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔جگدیپ کہتے ہیں ’’ریکارڈنگ کے بعد جب میں نے انہیں لفافہ دیا تو انہوں نے کہا ’تومیرے سامنے کا بچہ ہے۔ پیسے دے کر میری بے عزتی نہ کر ، اسے جیب میں رکھ لے۔‘‘
فلمی دنیا میں ایک سے ایک فنکار ہوئے۔ ان میں کئی نیک نام بھی تھے لیکن محمد رفیع کے فن کی طرح ان کے کردار کو بھی کوئی چھو نہیں سکا۔فلمی ستاروں کی چمک دمک، مقبولیت و شہرت، رعب ودبدبہ،ہر چیز کو رفیع صاحب نے اپنے اخلاق سے زیر کر رکھا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے فن کی جتنی قدر کرتے تھے ، اتنی ہی ان کی ذات سے عقیدت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی اور ان کے جنازے کو طے شدہ پروگرام کے تحت کچھ دور پیدل لے جانےکے بعد ایمبولنس میں رکھا گیا تو راجندر کمار، سنیل دت اور دھرمیندر جیسے فلمی دنیا کے اس وقت کے اہم ستونوں نے یہ ضد پکڑ لی کہ جنازےکو ایمبولنس سے نیچے اتارا جائے ہم لوگ رفیع صاحب کو اپنے کندھوں پر قبرستان لے جائیں گے۔ کہتے ہیں فلمی دنیا میں جس اہتمام ، احترام و احتشام کے ساتھ رفیع صاحب کا جنازہ گیا، ویسا پھر کسی کا نہیں گیا۔ آپ غور کیجئے ، رفیع صاحب وہ واحد گلوکار ہیں جن کی مقبولیت کے ساتھ ان کے تئیں احترام بھی نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔