Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستانی فلموں میں عید کے تہوار کو پیش کرنےکی روایت کافی پرانی ہے

Updated: April 06, 2025, 11:25 AM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

۱۹۵۸ء میں پیش کی گئی فلم ’سوہنی مہیوال‘ میں عید کے تہوار سے متعلق شکیل بدایونی کا لکھا نغمہ ’عید کا دن تیرے بِن‘ کو موسیقار نوشاد علی نے ترتیب دیا تھا جو کافی مقبول ہوا تھا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستانی فلموں کے ابتدائی زمانے میں جب فلموں کی کہانی مذہبی قسم کے کرداروں کی دیومالائی داستانوں پر مبنی ہوا کرتی تھی یا پھر جادو بھری کہانیوں پر فلمیں بنائی جاتی تھیں، تو لوگ اُن کو بہت پسند کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ان کرداروں میں یا ان کہانیوں میں اپناپن محسوس ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ جب ہمارا سنیما ترقی کی طرف گامزن ہوا تو سماجی مسائل اور جذباتی رشتوں پر ہماری فلموں کی کہانیاں مرکوز ہونے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی سماج میں رائج بہت سے تیوہاروں کی منظرکشی بھی ہماری فلموں میں ہونے لگی۔ 
اس طرح مختلف قسم کے تہواروں کے پس منظر میں جذباتی قسم کے رشتوں کو فلموں میں اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ ناظرین بھی جذباتی ہوکر سنیما ہال سے نکلتے تھے اور فلموں کے ایسے مناظر کی تعریف بھی کرتے تھے۔ فلموں میں گانوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے اس طرح کےتہواروں کے موقع پر نغمے بھی فلموں میں استعمال کرنا شروع کر دیئے اور فلمی نغمہ نگاروں نے بہترین قسم کے گانے ایسے مناظر کی فلمبندی کیلئے تحریر کئے۔ مثلاً ہماری فلموں میں رکشا بندھن، دیوالی، ہولی، کروا چوتھ اور عید جیسے تہواروں کو بڑی عقیدت کے ساتھ فلمایا گیا اور بڑے ہی جذباتی قسم کے گیت اِن تہواروں کے تعلق سے لکھے گئے۔ یہاں تک کہ کئی فلموں میں تو اِن تہواروں کو کہانی میں اس طرح پیوست کیا گیا کہ وہ فلم کا لازمی جزو بن گئے۔ 
ہندوستانی سماج میں عید کا تہوار بڑے جوش وخروش اور جذباتی انداز میں منایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی دُوسری سب سے بڑی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہاں مسلمانوں کی آبادیاں تقریباً ملک کے ہر حصے میں موجود ہیں لہٰذا رمضان کے ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد جب عید آتی ہے تو اس کی خوشیاں بھی بڑے پیمانے پر کئی کئی دنوں تک منائی جاتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد اور تحفے دیتے ہیں۔ نئے نئے کپڑے بنائے جاتے ہیں۔ مسجدوں کے ساتھ ہی گھروں اور محلوں کو سجایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں لوگ دعوت پر جاتے ہیں۔ 
ہندوستانی سنیما نے اس جذباتی تہوار کو کئی فلموں میں نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں فلمساز جے این چودھری کی فلم ’سوہنی مہیوال‘ میں بھارت بھوشن اور اچلا سچدیو مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم میں عید کے تہوار کے موقع پر شکیل بدایونی کا لکھا نغمہ ’’عید کا دن تیرے بِن‘‘ کو موسیقار نوشاد علی نے اس خوبصورت انداز میں ترتیب دیا تھا کہ اُس وقت عوام میں یہ نغمہ کافی مقبول ہوا، اور فلم کی ضرورت بن کر کہانی کا ایک اہم حصہ محسوس ہوا۔ 
عید کے تہوار کے تعلق سے اگلے ہی برس ۱۹۶۰ء میں ایک فلم آئی تھی ’عید مبارک‘۔ اس فلم کو رمیش ملہوترا نے ڈائریکٹ کیا تھا اور کمل راجستھانی نے موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں مرکزی کردار شیلا خان، جانکی داس، سپرو اور لیلا مشرا نے ادا کئے تھے۔ یہ فلم عید کے تہوار کو ہی مرکزی خیال بناکر تیار کی گئی تھی۔ ۱۹۶۰ء میں ہی ہندوستانی سنیما کی ایک اہم فلم ’برسات کی رات‘ کی نمائش ہوئی۔ فلمساز آر چندرا کی اس فلم کی ہدایت پی ایل سنتوشی نے کی تھی اور موسیقار روشن کی دھنوں پر ساحرؔ لدھیانوی نے بہترین نغمے لکھے تھے، جو عوام وخواص میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس فلم میں مدھوبالا کے ساتھ بھارت بھوشن ہیرو تھے۔ اس فلم کی تین قوالیاں آج تک عوام کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہیں۔ اس فلم میں شیاما پر فلمایا گیا ایک نغمہ:
مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا
عید کے تعلق سے جتنے بھی فلمی نغمے اب تک آئے ہیں، یہ گانا اُن میں سب سے مقبول ترین رہا ہے۔ 
مزاحیہ اداکار اوم پرکاش نے ایک فلم بنائی تھی ’جہاں آراء‘۔ یہ فلم ۱۹۶۴ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ بھارت بھوشن، مالا سنہا اور پرتھوی راج کپور کے مرکزی کرداروں والی اس فلم کے نغمے کافی مقبول ہوئے تھے۔ مدن موہن کی دھنوں پر راجندر کشن کے لکھے نغموں میں ایک گانا تھا:
بعد مدت کے یہ گھڑی آئی
آپ آئے تو زندگی آئی
اس گانے کے ایک انترے میں ایک مصرعہ اس طرح ہے۔ 
’’عید سے پہلے میری عید ہوئی‘‘
اس گانے کے ساتھ ساتھ ہی یہ مصرعہ بھی عوام میں کافی مقبول ہوا اور زبان زد خاص و عام ہوا۔ 
آپ کو یاد ہوگا، کمال امروہوی کی لکھی ہوئی کہانی پر اُن کے چھوٹے بیٹے تاجدار امروہوی نے ایک فلم بنائی تھی ’شنکر حسین‘۔ حالانکہ یہ فلم کامیاب نہیں ہو سکی مگر اس فلم کے نغمے کافی مقبول ہوئے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’شنکر حسین‘ میں قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے موضوع کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم میں عید کے تہوار کو تھوڑا تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور عید کے موقع پر مسلم گھرانوں میں کس طرح کے پروگرام ہوتے ہیں، اس کی عکاسی خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔ ایسے ہی موقع پر جلال آغا اور روپیش کمار پر قوالی کے انداز میں چہار بیت کو فلمایا گیا ہے۔ یہ صنف سخن اُترپردیش کے روہیل کھنڈ کے علاقوں میں کافی مقبول ہے۔ کیفؔ بھوپالی کی لکھی اس چہار بیت:
’’اچھا اُنہیں دیکھا ہے بیمار ہوئی آنکھیں ‘‘
کو خیام نے موسیقی سے سنوارا ہے اور عید کے تہوار کے پس منظر میں یہ بڑی خوبصورتی سے فلم کا اہم حصہ بن گئی ہے۔ 
۱۹۷۷ء میں ایک اور اہم فلم ’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘ آئی تھی۔ لیکھ ٹنڈن کی ہدایت میں بنی اس فلم میں پریم کشن، رامیشوری، مدن پوری اور افتخار اہم کرداروں میں تھے۔ افتخار فلم میں ایک مسلم ڈاکٹر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ اپنے خاص دوست کروڑپتی مدن پوری کا علاج بھی کرتے ہیں۔ عید کے موقع پر افتخار کے یہاں ایک محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فلم کی ہیروئن یہ غزل سناتی ہے:
محو خیال یار ہیں ہم کو جہاں سے کیا
اس فلم میں عید کے تہوار کو کافی اہمیت کے ساتھ فلمایا گیا تھا جو قومی ایکتا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام بھی دیتا ہے۔ 
۱۹۸۲ء میں ہدایتکار سبودھ مکرجی کی ایک فلم آئی تھی ’تیسری آنکھ‘۔ اس فلم میں دھرمیندر، زینت امان، شتروگھن سنہا، نیتو سنگھ، قادر خان اور بھگوان نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ اس فلم میں بھی عید کے تہوار کے موقع پر دو ناراض دوستوں کو منانے کیلئے ایک گیت کا استعمال کیا گیا تھا، جو عید کی ایک خاص رسم گلے ملنے کے تعلق سے تھا:
عید کے دن گلے مل لے راجہ
دور بیٹھا ہے کیوں، پاس آجا
۱۹۸۲ء میں ہی ہدایتکار ایچ ایس رویل کی فلم ’دیدار یار‘ آئی تھی۔ یہ ایک مسلم سوشل فلم تھی اور اس فلم میں کیفیؔ اعظمی کے نغموں کو لکشمی کانت پیارے لال نے اپنی موسیقی سے سنوارا تھا۔ جتیندر، ریکھا، رشی کپور، ٹینا منیم، رینا رائے، نروپا رائے، شری رام لاگو اور دیوین ورما فلم کے اہم ستارے تھے۔ اس فلم میں عید کے حسین تہوار کے موقع پر ایک خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا:
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دُنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
کیفیؔ اعظمی کا یہ گانا کافی مقبول ہوا تھا۔ ۱۹۸۲ء میں ہی ہندوستانی سنیما کی ایک اور اہم فلم ’نکاح‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ بی آر چوپڑہ کی اس فلم میں پاکستانی اداکارہ سلمیٰ آغا کے ساتھ دیپک پراشر ہیرو تھے۔ یہ بھی مسلم سوشل فلم تھی اور حسن کمال کے نغموں کو روی نے موسیقی سے سجایا تھا۔ اس فلم میں عید کے تہوار کو کافی تفصیل سے فلمایا گیا تھا۔ عید کے ایک خصوصی پروگرام میں ایک خوبصورت قوالی بھی گائی گئی تھی:
چہرہ چھپا لیا ہے کسی نے نقاب میں 
فلم ’نکاح‘ کی یہ قوالی کافی مقبول ہوئی اور آج بھی اکثر سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح۱۹۹۸ء میں ریلیز فلم ’ہیرو ہندوستانی‘ میں بھی عید کے تعلق سے ایک نغمہ فلمایا گیا تھا:
چاند نظر آگیا، اللہ ہی اللہ
انو ملک کی موسیقی میں یہ گانا ارشد وارثی، نمرتا شروڈکر اور قادر خان وغیرہ پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کے ہدایتکار عزیز سجاول تھے۔ ۲۰۰۲ء میں سلمان خان اور سشمتا سین کی ایک فلم آئی تھی ’تم کو نہ بھول پائیں گے‘۔ اس فلم میں جلیس رشید کا لکھا نغمہ گلوکار سونو نگم نے گایا تھا، جو عید کے تہوار ہی سے متعلق تھا۔ 
مبارک مبارک عید مبارک
اس کے علاوہ اُسی برس فلم ’یہ محبت ہے‘ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں آکانکشا ملہوترہ، موہنیش بہل، مینو ممتاز، ناصر خان، موہن شرما، شکتی کپور، پریکشت ساہنی اور ڈینی نے کردار ادا کئے تھے۔ رمیش مہرہ کی ہدایت میں بنی اس فلم کی موسیقی آنند راج آنند نے ترتیب دی تھی۔ اس فلم میں بھی عید کے تہوار کے تعلق سے ایک نغمہ فلمایا گیا تھا:
’’چاند سامنے ہے عید کا....‘‘
سونو نگم اور الکا یاگنک کی آواز میں یہ گانا کافی مقبول ہوا تھا۔ 
ہماری فلموں میں ہندوستان کے بیشتر اہم تہواروں میں سے ایک عید کے موقع پر نہ صرف بہترین نغمے لکھے گئے بلکہ فلم میں خاص طور پر عید کی سچویشن کو قومی یکجہتی کے طور پر تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ عید کے تہوار سے متعلق کئی یادگار نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں کو جوڑنے اور جذباتی مقدس رشتوں کو تازگی بخشنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے معاشرے اور زندگی کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK