• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فلم انڈسٹری میں امیتابھ بچن اور وِنود کھنہ کا ایک دور تھا، اس جوڑی نےلگاتار کئی کامیاب فلمیں دی تھیں

Updated: November 19, 2023, 12:34 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

امیتابھ بچن اور ونود کھنہ فلم انڈسٹری میں ایک دوسرے کے حریف بھی رہے ہیں اور حلیف بھی۔ دونوں نے ایک ساتھ کئی اہم فلموں میں کام کیا جن میں سے کم از کم ۵؍ فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب رہیں۔

The successful pair of Amitabh Bachchan and Vinod Khanna in the movie `Mukdar Ka Sikandar`. Photo: INN
فلم ’مقدر کا سکندر‘ میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی کامیاب جوڑی۔ تصویر : آئی این این

امیتابھ بچن اور ونود کھنہ فلم انڈسٹری میں ایک دوسرے کے حریف بھی رہے ہیں اور حلیف بھی۔ دونوں نے ایک ساتھ کئی اہم فلموں میں کام کیا جن میں سے کم از کم ۵؍ فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب رہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ دونوں کی کامیاب فلموں جن میں ہیر ا پھیری، پرورش، خون پسینہ، امر اکبر انتھونی اور مقدر کا سکندر کے نام قابل ذکر ہیں ، میں اپنی اداکاری سے ونود کھنہ ، امیتابھ بچن پر بھاری پڑے تھے، اس کے باوجود امیتابھ بچن سپر اسٹار بنے اور ونود کھنہ وہیں رہ گئے۔ فلم ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ونود کھنہ نے اگر اپنی اداکاری کے عروج کے دور میں فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار نہ کی ہوتی تو شاید سُپر اسٹار وہی تھے۔دراصل جس وقت امیتابھ بچن نے فلم انڈسٹری میں داخلہ لیا اور خواجہ احمد عباس کی فلم ’سات ہندوستانی‘ کے ذریعہ پردہ سیمیں پر نظر آئے، تب تک ونود کھنہ بالی ووڈ میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ ’سات ہندوستانی‘ سے قبل ونود کھنہ کی کئی اہم فلمیں ریلیز ہوچکی تھیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دونوں نے کن کن فلموں میں کام کیا اور عوام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
ریشما اور شیرا (۱۹۷۱ء)
یہ فلم پوری طرح سے سنیل دت کی تھی جو ۲۳؍ جولائی ۱۹۷۱ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ وہ نہ صرف اس کے مرکزی کردار تھے بلکہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان تھیں جبکہ امیتابھ بچن اور ونود کھنہ بھی اس فلم کا حصہ تھے لیکن انہیں اپنے فن اور اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کیلئےکچھ خاص نہیں تھا۔ پوری کہانی سنیل دت اور وحیدہ رحمان کے ارد گرد ہی تھی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کے ساتھ ہی فلم ناقدین کا دل بھی جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ اس فلم کی ۲۲؍ویں برلن فلم فیسٹیول میں نامزدگی عمل میں آئی تھی اور۴۴؍ویں اکیڈمی ایوارڈ کیلئے بھی ’غیر ملکی فلم‘ کے زمرے میں ہندوستان کی طرف سے آفیشیل فلم کے طور پر پیش کی گئی تھی لیکن اس کی نامزدگی عمل میں نہیں آسکی تھی۔ اس کے علاوہ اس فلم کو نیشنل فلم ایوارڈ کی جانب سے۳؍ ایوارڈ ملے تھے۔
کنوارہ باپ (۱۹۷۴ء)
 ۲۹؍ نومبر۱۹۷۴ء کو ریلیز ہونے والی یہ فلم بنیادی طور پر محمود کی فلم تھی ، جس میں مرکزی کردار کے طورپر وہ خود تھے جبکہ فلم میں ان کے بیٹے میکی علی اور ان کے والد ممتاز علی بھی تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے ستاروں کی بھرمار تھی جو ’مہمان فنکار‘ کے طورپر اس فلم کا حصہ تھے۔ انہیں فنکاروں میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ بھی تھے۔ ان کے ساتھ ہی دھرمیندر، ہیما مالنی، سنجیو کمار، بھارتی، بھوشن کمار، نذیر حسین ، یوگیتا بالی، دارا سنگھ، للتا پوار اور مقری بھی تھے۔ اس فلم کے ذریعہ محمود نے ’پولیو‘ سے جنگ کیلئے عوامی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ فلم عوام تک نہ صرف اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہی بلکہ باکس آفس پر بھی اس نے تہلکہ برپا کیا تھا۔
ضمیر (۱۹۷۵ء)
  بی آر چوپڑہ کی اس فلم کے ہدایت کار روی چوپڑہ تھے جبکہ شمی کپور اور سائرہ بانو مرکزی کردار کے طور پر تھے۔ اس فلم میں امیتابھ بچن بھی تھے جبکہ ونود کھنہ مہمان فنکا ر کے طورپر اس فلم کا حصہ تھے۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ فلم اُس سال باکس آفس کے لحاظ سے ۱۶؍ویں مقام پر تھی۔ بہرحال اس کی کامیابی سہرہ شمی کپور اورروی چوپڑہ کے سر بندھا تھا۔ امیتابھ بچن یا ونود کھنہ کے حصے میں کچھ نہیں آیا تھا۔ 
ہیرا پھیری (۱۹۷۶ء)
 امیتابھ بچن او ر ونود کھنہ کی یہ پہلی کامیاب فلم تھی جو ۱۰؍ ستمبر ۱۹۷۶ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ یہ اُس سال کی چوتھی سب سے کامیاب فلم تھی۔ باکس آفس کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ فلم ناگن، لیلیٰ مجنوں اور دس نمبری کے بعد تھی جبکہ چرس، فقیرا، کالی چرن اور کبھی کبھی سے آگے تھی۔اگر اداکاری کیلئے فلم فیئر ایوارڈ کو پیمانہ مان کردیکھا جائے تو ونود کھنہ نے امیتابھ کو مات دے دیا تھا۔ اس فلم کو فلم فیئر ایوارڈ کیلئے صرف ایک ہی زمرے میں نامزدگی عمل میں آئی تھی اور وہ ونود کھنہ تھے جنہیں بطور معاون اداکار نامزد کیا گیا تھا۔ پرکاس مہرہ کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں امیتابھ بچن کے مقابل سائرہ بانو تھیں جبکہ ونود کھنہ کے مقابل سلکشنا پنڈت تھیں ۔اس فلم کے بعد نہ صرف فلم شائقین میں بلکہ فلم سازوں میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی جوڑی مقبول ہوگئی تھی۔ 
خون پسینہ (۱۹۷۷ء)
  یہ امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی جوڑی کی لگاتار دوسری کامیاب فلم تھی۔ ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ءکو پردہ سیمیں پر پیش کی جانے والی اس فلم نے باکس آفس پر اچھا کاروبار کیا تھا۔ اُس سال ریلیز ہونے والی فلموں میں کمائی کے لحاظ سے فلم’خون پسینہ‘ نےچھٹا مقام حاصل کیا تھا۔ راکیش کمار کی ہدایت میں بننے والی اس فلم میں امیتابھ اور ونود کھنہ کے ساتھ مرکزی کردار میں ریکھا بھی تھیں ۔ اس فلم میں بھی فلم ناقدین نے ونود کھنہ کی اداکاری کی خوب تعریف کی تھی۔ فلم کی کہانی قادر خان نے لکھی تھی۔ اس فلم کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۷۹ء میں ’ٹائیگر‘ کے نام سے اس کا ’ری میک‘ تیلگو زبان میں ہوا جس میں این ٹی راما راؤنے مرکزی کردا ر ادا کیا تھا جبکہ ۱۹۸۹ء میں ’شیوا‘ کے نام سے تمل زبان میں ری میک ہوا۔ اس میں رجنی کانت مرکزی کردار کے طور پر تھے۔ 
امر اکبر انتھونی (۱۹۷۷ء)
 امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی یہ فلم بھی اُسی سال ۲۷؍ مئی کو ریلیز ہوئی تھی جو کامیاب بھی رہی۔ باکس آفس پر اس فلم نے تہلکہ مچا دیا تھا اور سال بھر کی تمام فلموں میں کاروبار کے لحاظ سے سرفہرست تھی۔وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس فلم نے تقریباً ۱۶؍ کروڑ روپوں کا کاروبار کیا تھا جو اُس دور میں ایک بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ اسی طرح فلم فیئر ایوارڈ پر بھی اس فلم کا قبضہ تھا۔ اس فلم کو ۷؍ زمروں میں نامزدگی عمل میں آئی تھی جن میں سے اس کے حصے میں تین ایوارڈ آئے تھے۔ اس میں بہترین اداکار کے طورپر امیتابھ بچن کو ایوارڈ دیا گیا تھا۔ امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کے ساتھ اس فلم میں رشی کپور، شبانہ اعظمی، نیتو سنگھ اور پروین بابی بھی مرکزی کردار میں تھے جبکہ ہدایت کار اور فلمساز منموہن دیسائی تھے۔ فلم کے مکالمے قادر خان نے تحریر کئے تھے۔ یہ فلم ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی ایک نمائندہ فلم تصور کی جاتی ہے جس میں ونود کھنہ نے امر کھنہ (ہندو)، رشی کپور نے اکبر الہ آبادی (مسلم) اور امیتابھ بچن نے انتھونی گونزالویز (عیسائی) کا کردار ادا کیا تھا۔
 پرورش (۱۹۷۷ء)
 اگریہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ۱۹۷۷ء کا سال امیتابھ بچن ،ونود کھنہ کی اداکاری اور منموہن دیسائی کی ہدایت کاری سے موسوم رہا۔ اُس سال منموہن دیسائی کی ۴؍ فلمیں پرورش، امر اکبر انتھونی، چاچا بھتیجا اور دھرم ویر نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اُس سال کی کامیاب ٹاپ ٹین فلموں میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی بھی ۴۔۴؍ فلمیں شامل تھیں جن میں سے تین فلمیں اس جوڑی کی ہی تھیں ۔ اس کے مکالمے بھی قادر خان ہی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔
۱ء۶۶؍کروڑ کے بجٹ میں تیار ہونے والی اس فلم نے ساڑھے ۶؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا اور باکس آفس کے لحاظ سے اُس سال ریلیز ہونےوالی فلموں میں چوتھی پوزیشن پر تھی۔ اس میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کے ساتھ نیتو سنگھ اور شبانہ اعظمی مرکزی کردار میں تھیں جبکہ امجد خان اور قادر خان نے ویلن کا کردار ادا کیا تھا۔
مقدر کا سکندر (۱۹۷۸ء)
 بطور مرکزی کردار امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی جوڑی کی یہ آخری فلم ثابت ہوئی۔ اُس سال اس فلم کا جادو فلم شائقین کے سروں پر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایک کروڑ کی بجٹ والی اس فلم نے ۲۷؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا اور سال کی بہترین فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس نے پرکاش مہرا کو مالا مال کردیا تھا جو اس فلم کے ہدایت کار اور فلم ساز بھی تھے۔ فلم فیئر ایوارڈ کیلئے حالانکہ اس فلم کو کل ۹؍ زمروں میں نامزد کیا گیا تھا لیکن سارے ایوارڈس پر فلم ’ڈان‘ اور ’میں تلسی تیرے آنگن کی‘ نے قبضہ کرلیاتھا۔ اس کے حصے میں کچھ نہیں آیا لیکن کمائی کے معاملے میں سرفہرست رہی۔ اس فلم میں راکھی اور ریکھا بھی مرکزی کردار میں تھی۔ اس کے مکاملے بھی قادر خان نے تحریر کئے تھے۔
 اورجوڑی ٹوٹ گئی
 اس کے بعد جہاں ایک جانب امیتابھ بچن سپر اسٹار کے مسند پر براجمان ہوگئے، وہیں اپنے کریئرکی بلندی پر موجود ونود کھنہ نے ۱۹۸۲ء میں فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا اور ’اوشو‘ حلقے میں شامل ہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔اس طرح یہ مقبول جوڑی ٹوٹ گئی اور امیتابھ بچن کے ساتھ ششی کپور کی جوڑی بن گئی۔ یہ جوڑی بھی کافی مقبول ہوئی۔ بہرحال ۵؍ سال بعد ونودکھنہ دوبار انڈسٹری میں داخل ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا ایک بار پھر منوایا۔ امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کی جوڑی ٹوٹنے کے پیچھے ایک کہانی بھی بتائی جاتی ہے، لیکن وہ کتنا سچ ہے اور کتنا غلط اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ فلم ’مقدر کا سکندر‘ کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ بچن کو ونود کھنہ پر گلاس پھینکنا تھا اور ونود کھنہ کو اس گلاس سے بچنا تھا.... لیکن جیسے ہی ڈائریکٹر نے ایکشن کہا تو امیتابھ بچن نے نہایت تیزی کے ساتھ ونود کھنہ پر گلاس پھینک دیا، جس کی وجہ سے ونود کھنہ بچ نہیں پائے۔ وہ گلاس ونود کھنہ کی ٹھوڑی پر جا لگا جس کی وجہ سے ان کا چہرہ لہولہان ہو گیا۔ بعد ازاں ان کو ۱۶؍ ٹانکے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے خود کو امیتابھ بچن سے دور کر لیا تھا اور پھر کبھی ان کے ساتھ کام نہیں کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK