• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یوسف خان کے سامنے دیویکارانی کی طرف سے تین ناموں کی تجویز رکھی گئی تھی

Updated: July 07, 2024, 1:17 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

یوسف خان کے سامنے دیویکارانی کی طرف سے تین ناموں کی تجویز رکھی گئی تھی، جہانگیر، واسو دیو اور دلیپ کمار۔

Dilip Kumar got respect and respect in the film industry, it did not come to anyone else. Photo: INN
فلم انڈسٹری میں جوعزت و احترام دلیپ کمار کو ملا، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ تصویر : آئی این این

متحدہ پنجاب کے شہر پشاور میں ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۴ء کو غلام سرور خان کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام محمد یوسف تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پیار سے اس بچےکو خاندان کے لوگ ’لالے‘ بھی کہہ کر پُکارتے تھے۔ 
 یوسف خان۸؍ سال کا ہوا تو ایک دن وہ اپنے گودام سے ڈرائی فروٹ لینے گیا کہ اچانک بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے۔ انگریز فوجیوں کی گاڑیاں انہیں روندتی ہوئی چلی جا رہی تھیں۔ کمسن یوسف نے دُکان کے برآمدے سے چھپ کر دیکھا کہ ایک ۱۸؍ سالہ پٹھان ایک ٹینک پر کود گیا ہے۔ آزادی کے متوالے پٹھانوں اور انگریزوں میں دوبدو جنگ ہو رہی تھی۔ پٹھانوں کو اپنی سرزمین پر انگریزوں کے ناپاک قدم گوارا نہیں تھے۔ 
 یوسف خان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور لوگ کیوں آگ اور خون سے کھیل رہے ہیں ؟ وہ تو بس جلدی سے دوڑ کر اپنے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ایک انگریز سپاہی نے اُسے پکڑ لیا اور ایک طمانچہ رسید کردیا۔ یوسف روتا ہوا گھر پہنچا.... لیکن اُس ۱۸؍ برس کے پٹھان نے جو ملک پر شہید ہوچکا تھا، یوسف کو آزادی کا مطلب سمجھا دیا تھا۔ اس دن سے محمد یوسف کو انگریزوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ 
 یوسف خان کی والدہ عائشہ بیگم بے حد نفیس طبع خاتون تھیں۔ آداب و رکھ رکھائو ان کی زندگی کے معمولات میں شامل تھے۔ یوسف کا گھر بہت بڑا تھا، جس میں ۶؍ بہنوں اور۶؍ بھائیوں کی پرورش ہو رہی تھی۔ ان سب بچوں کی پرورش کی ذمہ داری والدہ پر ہی تھی اور وہ کسی معاملے میں بھی کسی قسم کے سمجھوتے کی قائل نہیں تھیں۔ 
  یوسف خان کچھ بڑے ہوئے تو ان کے والد غلام سرور خان اپنے کاروبار کے سلسلے میں ممبئی آگئے۔ اُس وقت غلام سرور خان کے والد بھی حیات تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو ان کی بیوی بچوں کو بھی ساتھ بمبئی لے جانے کی اجازت دے دی۔ اس طرح نوعمر یوسف خان اپنے والدین کے ساتھ پشاور سے بمبئی آگئے۔ انہوں نے بمبئی کے انجمن اسلام اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور خالصہ کالج سے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کی۔ 
 غلام سرور خان نےممبئی کی کرافورڈ مارکیٹ میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ ایک بڑے کنبے کی ضروریاتِ زندگی کی خاطر انہیں بہت محنت کرنی پڑتی تھی۔ اس کے باوجود ان کو کاروبار میں زبردست خسارہ ہوا اور رفتہ رفتہ مالی حالت خراب سے خراب ہوتی چلی گئی۔ اسی دوران ان کے بڑے بیٹے ایوب خان ۱۳؍ برس کی عمر میں بیمار پڑ گئے اور ان کی بیماری نے طول پکڑ لیا۔ یوسف خان نے ان حالات میں اپنے باپ کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اس میں ہاتھ بٹانے کی کوششیں شروع کر دیں .... اور یہی احساسِ ذمہ داری یوسف کو ممبئی سے پونے لے گیا۔ 
 پونے آکر یوسف خان نے ولنگڈن سولجر کلب کی کینٹین میں ۳۶؍روپیہ ماہوار پر ملازمت حاصل کر لی۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی، اسلئے آرمی کیمپ میں ۶؍ ماہ بڑے مزے سے گزرے۔ شاید یہ ملازمت کچھ دن اور چلتی لیکن ان کے سینے میں تو وطن کی آزادی کی شمع بچپن ہی ہی روشن ہو چکی تھی، اسلئے وہ چوری چھپےبرٹش کانسٹی ٹیوشن کے لیکچر سن کر نیشنلزم پر مضمون تیار کرنےلگے اور اپنے دوستوں کو سنانے لگے۔ ایک دن اسی طرح کے مضامین پڑھتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ یوسف کو یروڈہ جیل میں نامور مجاہدین آزادی کے ساتھ قید میں رہنے کا فخرحاصل ہوا۔ بعدمیں علاقائی کمانڈر نے اچھے برتاؤ کی وجہ سے مقررہ وقت سے پہلے ہی جیل سے رہا کر دیا۔ 
 بمبئی میں ایک قریبی دوست حسن کے ذریعہ یوسف خان کی ملاقات دیویکا رانی سے ہوئی۔ فلم انڈسٹری کی ایک خوبصورت، تعلیم یافتہ اور بامبے ٹاکیز کے روحِ رواں ہمانشو رائے کی شریک حیات اور اپنے زمانے کی مشہور ہیروئن دیویکارانی اپنے سامنے بیٹھے ایک شرمیلے نوجوان، معصوم صورت اور خوش کلام محمد یوسف سے پوچھ رہی تھیں۔ 
 ’’کیا تم نے کبھی اسٹیج پر کام کیا ہے؟‘‘
 ’’نو میڈم۔ ‘‘
 ’’کیا تم فلموں میں کام کرنا پسند کروگے؟‘‘
 ’’یس میڈم۔ ‘‘
 ’’کیا تم سگریٹ پیتے ہو؟‘‘
 ’’نو میڈم۔ ‘‘
 ’’کیا تم روانی کے ساتھ اُردو بول سکتے ہو؟‘‘
 ’’یس میڈم۔ ‘‘
 اس مختصر سے انٹرویو میں دیویکارانی نے یوسف خان کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی تھی، نہ ہی کوئی وعدہ کیا تھا۔ دو دن بعد یوسف کو جب دوبارہ بامبے ٹاکیز میں بلایا گیا تو دو گھنٹے کے بعد ہی ان کے ہاتھ میں ایک کانٹریکٹ لیٹر تھا۔ یوسف کو پانچ سو روپے ماہانہ کی ملازمت مل چکی تھی جس میں ہر سال دو سو روپے کے اضافے کا وعدہ بھی شامل تھا اور یہ کانٹریکٹ ۳؍ سال کیلئے تھا۔ 
 دیویکارانی کو فلمی ماحول کیلئے یوسف خان نام پسند نہیں تھا، اسلئے انہوں نے فلموں کیلئے نام تبدیل کرنے کی بات کہی۔ اُن دنوں ہندی کے مشہور ادیب اور ناول نگار بھگوتی چرن ورما بھی بامبے ٹاکیز کے ہی ملازم تھے اور اس وقت بامبے ٹاکیز کے دفتر میں دیویکارانی کے سامنے ہی بیٹھے تھے۔ یوسف کے سامنے تین ناموں کی تجویز رکھی گئی۔ یہ نام تھے جہانگیر، واسودیو اور دلیپ کمار۔ یوسف کو یہ تینوں نام پسند نہیں آئے تھے لیکن دیویکارانی کو دلیپ کمار بہت پسند تھا اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ اشوک کمار نام کے مدمقابل یہ ایک اچھا نام تھا۔ اس طرح یوسف خان نے بھی دلیپ کمار پر اپنی رضا مندی کااظہار کردیا۔ 
 اس طرح امیہ چکرورتی کی ہدایت میں دلیپ کمار کی سب سے پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ شروع ہوئی۔ دلیپ کمار صبح ۹؍ بجے باندرہ سے لوکل ٹرین پکڑتے اور ملاڈ پہنچتے، جہاں بامبے ٹاکیز واقع تھا۔ شام ۵؍ بجے ان کی واپسی ہوتی، خواہ شوٹنگ ہو یا نہ ہو، لیکن صبح ۹؍ سے شام ۵؍ بجے تک اسٹوڈیو میں ان کی موجودگی ہی ان کی ڈیوٹی تھی۔ ’جوار بھاٹا‘ میں ہیروئن کا رول اس وقت کی مشہور اداکارہ مردولا نے ادا کیا تھا۔ اپنی پہلی ہی فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرتے وقت دلیپ کمار کافی نروس تھے۔ دیویکارانی اور امیہ چکرورتی نے تقریباً ہر شاٹ پر دلیپ کمار کی حوصلہ افزائی کی اور یہ فلم مکمل ہوکر ۱۹۴۴ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی مگر یہ فلم بزنس کے لحاظ سے بہت زیادہ کامیاب نہیں رہی لیکن نقادوں اور تماشائیوں نے دلیپ کمار کے کام کو کافی سراہا۔ اس کے چند ماہ بعد ہی دلیپ کمار کو فلم ’پرتیما‘ کیلئے منتخب کیا گیا۔ اس فلم میں بطور ہیروئن دلیپ کمار کے ساتھ اداکارہ سورن لتا تھیں۔ یہ بھی اس دور میں صف اول کی اداکارہ تھیں۔ اس کے بعد ’گھر کی عزت‘ (۱۹۴۸ء) میں بھی سورن لتا کو ہی دلیپ کمار کی ہیروئن کیلئے لیا گیا لیکن چند وجوہات کی بنا پر ہدایتکار رام دریانی نے سورن لتا کو ہٹاکر ممتاز شانتی کو ہیروئن منتخب کر لیا۔ رمیش سہگل کی فلم’شہید‘ (۱۹۴۸ء) اس زمانے میں تکمیل کے مراحل طے کر رہی تھی، جب انگریز حکمران اپنی بساطِ سیاست پر ناکام ہو رہے تھے اور ملک چھوڑنے پر مجبور نظر آرہے تھے۔ فلم ’شہید‘ دلیپ کمار کی زندگی کی پہلی بڑی فلم ثابت ہوئی۔ 
 اُدھر شوکت حسین رضوی فلم ’جگنو‘ (۱۹۴۷ء) کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ وہ اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ ملکۂ ترنم نورجہاں کو بطور ہیروئن پیش کرنا چاہتے تھے۔ بحیثیت گلوکارہ نور جہاں کی ان دنوں بہت دھوم تھی لیکن دلیپ کمار اور نورجہاں کی جوڑی میں زیادہ مناسبت اور مطابقت نہیں تھی۔ بہرحال تماشائیوں نے فلم ’جگنو‘ کو کافی پسند کیا۔ اس فلم سے دلیپ کمار کی معیاری اداکاری کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نرگس اور دلیپ کمار کی جوڑی ’انوکھا پیار‘ (۱۹۴۸ء)، ’میلہ‘ (۱۹۴۸ء)، ’انداز‘(۱۹۴۹ء)، ’جوگن‘ (۱۹۵۰ء)، ’بابل‘ (۱۹۵۰ء) ’ہلچل‘ (۱۹۵۱ء) اور’دیدار‘ (۱۹۵۱ء) تک خوب چلی۔ ’انداز‘ پہلی اور آخری فلم تھی جس میں فلمساز و ہدایتکار محبوب خان نے دلیپ کمار اور راج کپور کو شاید دانستہ طور پر ایک دوسرے کے مقابل پیش کیا تھا۔ ناقدین نے اس فلم میں دونوں کی اداکاری کا موازنہ کیا۔ اس فلم کے بعد یہ بات ہمیشہ کیلئے طے پاگئی کہ راج کپور ایک لااُبالی، مسخرا اور ہنسوڑھ نوجوان اور دلیپ کمار ایک سنجیدہ اور دل شکستہ عاشق کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بعد میں راج کپور نے فلم ’جاگتے رہو‘ میں سنجیدہ اور دلیپ کمار نے فلم ’آزاد، گنگاجمنا، کوہ نور، رام اور شیام اوربیراگ‘ میں کھلنڈرے عاشق کا کردار ادا کرکے اداکاری کے فن میں قلندری کا ثبوت دیا۔ 
 فلم ’ترانہ‘ (۱۹۵۱ء) میں دلیپ کمار اور مدھوبالا پہلی بار یکجا ہوئے۔ اس فلم میں شیاما سائیڈ ہیروئن تھیں۔ اس کے بعد دلیپ کمار اور مدھوبالا کئی فلموں میں ایک ساتھ آئے۔ فلم ’ترانہ‘ کے بعد ’سنگ دل‘ (۱۹۵۲ء) اور پھر محبوب خان کی ’امر‘ (۱۹۵۴ء) اور کے آصف کی ’مغل اعظم‘ (۱۹۶۰ء) کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دوران دلیپ کمار اور مدھوبالا کے عشق کی داستانیں کافی مشہور ہوئیں۔ لوگ چاہتے تھے کہ دلیپ کمار، مدھوبالا کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں، بات کچھ حد تک آگے بڑھی بھی لیکن بات نہیں بن سکی۔ 
 دلیپ کمار صاحب نے پوری زندگی میں صرف ۵۴؍فلموں میں کام کیا مگر ان کا تمام کام اعلیٰ درجے کا رہا۔ ہمارے لئے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ہالی ووڈ میں بھی جو ادارے اداکاری سکھاتے ہیں، وہاں کے طلبہ کو دلیپ صاحب کے منتخب شاٹس بطور نمونہ دکھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے دلیپ کمار کو اداکاری کا اسکول کہنا حق بجانب ہے بلکہ وہ تو اداکاری کی یونیورسٹی تھے۔ اُن کے فن اداکاری سے صدیوں تک آنے والی نسلیں فیض حاصل کریں گی۔ 
 ۷؍جولائی ۲۰۲۱ء کی صبح وہ اس دُنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں ذاتی طور پر اُن کے انتقال کو ملک و قوم کا بڑا نقصان تصور کرتا ہوں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK