سنیما کی تاریخ میں شاہکار خیال کی جانے والی فلم ’’مغل اعظم‘‘ ۱۶؍ سال میں مکمل ہوئی تھی۔ کے آصف نے اس فلم پر اتنی محنت کی تھی کہ اس کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ شہنشاہ اکبر، شہزادہ سلیم اور انارکلی کا جب بھی ذکر ہوتا ہے، مداحوں کے ذہن میں بالترتیب پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار اور مدھوبالا کی شکلیں ابھرتی ہیں۔ کسی بھی فلم کی کامیابی کیلئے اتنا ہی ضروری ہے کہ اس کے کردار برسوں تک ناظرین کے دل و وماغ پر نقش کرجائیں۔ جانئے اس عظیم الشان فلم کی ۱۰؍ دلچسب باتیں۔ تمام تصاویر: آئی این این، ایکس، یو ٹیوب
’’مغل اعظم‘‘ کے ہدایتکار کے آصف نے اپنی زندگی میں صرف ۲؍ فلموں ہی کی ہدایتکاری کے فرائض انجام دیئے تھے۔ پہلی فلم ’’پھول‘‘ (۱۹۴۵ء) اور دوسری ’’مغل اعظم‘‘ (۱۹۶۰ء) تھی۔ کے آصف اپنی تیسری فلم ’’لو اینڈ گاڈ‘‘ (۱۹۸۶ء) مکمل نہیں کرسکے تھے۔
’’مغل اعظم‘‘ میں پہلے ڈی کے سپرو، چندر موہن اور نرگس کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران چندرموہن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد شوٹنگ ۵؍ برس کیلئے روک دی گئی ۔ بعد ازیں، کاسٹ میں تبدیلی کی گئی اور مرکزی کرداروں کیلئے پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار اور مدھوبالا کا انتخاب کیا گیا۔
’’مغل اعظم‘‘ اُس دور کی بالی ووڈ کی سب سے مہنگی فلم تھی۔ کئی عشروں تک یہ دنیا کی مہنگی فلموں کی فہرست میں شامل رہی تھی۔ فلم کی تیاری میں اس وقت ۵ء۱؍ کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے جو آج کے کم و بیش ایک ارب ۴۰؍ کروڑ روپے ہیں۔
فلم میں ملبوسات پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی تھی۔ ملبوسات کی سلائی دہلی جبکہ ان پر کڑھائی سورت (گجرات) میں ہوتی تھی۔ زیورات حیدرآباد سے اور تاج کولہاپور سے لائے گئے تھے۔ فلم میں استعمال ہوئیں تلواریں راجستھان سے اور جوتے آگرہ سے منگوائے گئے تھے۔
اس فلم میں جنگی مناظر کیلئے ۲۰۰؍ اونٹ اور ۴؍ ہزار گھوڑے لائے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگی مناظر کیلئے ہندوستانی فوجیوں کی مدد لی گئی تھی۔
فلم کا مشہور نغمہ’’پیار کیا توڈرناکیا‘‘ کی تیاری میں آج کے ۱۰؍ ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس نغمے کو حتمی شکل دینے سے قبل کے آصف نے اس میں ۱۰۵؍ مرتبہ ترمیم کی تھی۔ یہ نغمہ شکیل بدایونی نے لکھا تھا۔
’’پیار کیاتو ڈرنا کیا‘‘ نغمہ میں شیش محل کے مشہور سین کیلئے سینماٹوگرافر آر ڈی ماتھور کو مختلف قسم کی لائٹس کے ساتھ تجربہ کرنا پڑا تھا۔ شیشوں کی چمک کیلئے انہیں موم سے پینٹ کیا تھا۔ باؤنس لائٹنگ کیلئے شیشیوں پر کپڑے کے ٹکڑے رکھے گئے تھے۔
کے آصف فلم کاتمل اور انگریزی ورژن بھی شوٹ کرنا چاہتے تھے۔ تمل میں فلم کی ڈبنگ کی گئی اور اسے ’’اکبر‘‘ کےنام سے ریلیز کیا گیا تھا۔ اس ورژن کو زیادہ اہمیت نہ ملنے کے بعد انگریزی ورژن کا خیال رد کردیا گیا تھا۔
’’مغل اعظم‘‘ کیلئے بہترین اداکارہ کے زمرے میں فلم فیئر ایوارڈ کیلئے نامزد ہونے کے باوجود مدھوبالا ایوارڈ سے محروم رہی تھیں۔ یہ ایوارڈ بینا رائے کو فلم ’’گھونگھٹ‘‘ کیلئے تفویض کیا گیا تھا۔
جب فلم کی بکنگ شروع ہوئی تو ممبئی کے مشہور تھیٹرمراٹھا مندر میں افراتفرتی اور ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ مداح فلم کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کئی کئی دنوں تک لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے تھے جبکہ ان کے اہل خانہ ان کیلئے کھانا بنا کر لاتے تھے۔