مدھوبالا کے بارے میں۱۲؍غیر معروف اور دلچسپ حقائق
Updated: Feb 13, 2025, 7:01 AM IST | Afzal Usmani
بالی ووڈ میں مدھوبالا کو ایک ایسی اداکارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی دلکش اداؤں اور بہترین اداکاری سے تقریباً چار دہائیوں تک فلمی مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔ انتہائی خوبصورت اور معصوم سی مسکراہٹ بکھیرنے والی مدھو بالا کا شمار ہندی فلموں کی سب سے بااثر شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنی فن اداکاری سے مداحوں کے دل میں گھر کرلیا تھا۔ تمام تصاویر: آئی این این، انسٹا گرام، یوٹیوب
X
1/12
مدھوبالا کا اصل نام ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا۔ ان کی پیدائش ۱۴؍ فروری ۱۹۳۳ء کو دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد عطا اللہ خان رکشا چلایا کرتے تھے۔ تبھی ان کی ملاقات ایک نجومی سے ہوئی جس نے بتایا کہ مدھو بالامستقبل کی بہت کامیاب اداکارہ بنیں گی، بہت نام کمائیں گی لیکن یہ پوری عمر نہیں جی پائیں گی۔ گھر کی مالی حالت خراب ہونے کے باعث انہیں محض ۶؍سال کی عمر سے ہی فلموں میں کام کرنا پڑا۔ ’’نیل کمل‘‘ میں ان کے کام سے متاثر ہو کردیویکا رانی نے انہیں فلمی نام ’’مدھوبالا‘‘ دیا اور یہ نام فلموں کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔
X
2/12
انہوں نے ۱۹۴۲ءمیں صرف ۹؍سال کی عمر سے بی بے ممتاز کے نام سے فلم بسنت سے اپنے فلمی کریئر کا آغازکیا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں مدھو بالا نے فلم نیل کمل میں راج کپور کے مقابلے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ فلم محل سے شہرت اور ناموری کا جو سفر مدھو بالا نے شروع کیااسے کوئی بھلا نہیں سکتا۔ ’محل ‘کے بعد تو انہوں نے پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھااور ایک سےبڑھ کر ایک کامیاب فلمیں دیتی رہیں۔
X
3/12
۱۹۵۱ء میں مدھوبالا کی دلیپ کمار کے ساتھ پہلی فلم ’ترانہ‘ ریلیز ہوئی۔ حالانکہ دلیپ کمار کی پہلی فلم ’جواربھاٹا‘ میں مدھوبالا چائلڈ آرٹسٹ بے بی ممتاز کے نام سے ایک کردار ادا کر چکی تھی، مگر اب وہ فلم’ترانہ‘ میں دلیپ کمار کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی مدھوبالا کا رجحان دلیپ کمار کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ ۔ اسی سال یعنی ۱۹۵۱ء میں فلم ’ترانہ‘ کے علاوہ مدھوبالا کی کئی فلمیں، جیسےآرام، خزانہ، نازنین، نادان، بادل اورسیّاں بھی نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب وہ ایک مقبول اور باصلاحیت اداکارہ کے طور پر اپنے آپ کو ثابت کر چکی تھیں۔
X
4/12
اِن دونوں (دلیپ کمار اور مدھوبالا) عظیم اداکاروں نے فلم ’ترانہ‘ کے بعد ۱۹۵۲ء میں فلم ’سنگدل‘، ۱۹۵۴ء میں فلم ’امر‘ اور ۱۹۶۰ء میں فلم ’مغل اعظم‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔
X
5/12
دلیپ کمار اور مدھوبالا محبت کی زنجیر سے بندھے شادی کی دہلیز تک تو پہنچے لیکن اس وقت مدھوبالا اپنے خاندان کے لئے سونے نہیں بلکہ ہیرے کے انڈے دینے والی مرغی کی طرح تھیں۔ تبھی فلم ’’نیا دور‘‘ (اس فلم میں پہلے مدھوبالا کو بطور ہیروئن سائن کیا گیا تھا) کی آؤٹ ڈورشوٹنگ کے مدے پر ہدایت کار بی آر چوپڑہ اور مدھوبالا کے والد عطاء اللہ کے درمیان مقدمہ بازی شروع ہو گئی۔ دلیپ کمار نے چوپڑہ کا ساتھ دیا اور یہیں سے عطاء اللہ نے مدھود بالا اور دلیپ کمار کے تعلقات کو ہمیشہ کیلئےختم کر دیا۔
X
6/12
کے آصف کی تاریخ ساز فلم’مغل اعظم‘میں دلیپ کمار اور مدھوبالا، دونوں مرکزی کردار میں تھے۔ اس فلم میں دونوں فنکاروں نے اپنے اپنے کردار بے حد خوبصورتی اور ایمانداری سے ادا کئے۔ فلم ’مغل اعظم‘ کی تکمیل کے دوران ہی مدھوبالا کافی بیمار رہنے لگی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بڑی محنت کرکے اس فلم کومکمل کرایا۔
X
7/12
فلم’مغل اعظم ‘کے ایک رومانی منظر جس میں دونوں ساری رات درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر گرنے والی انارکی ڈھیروں کلیوں کے نیچے دب جاتے ہیں اور بغیر کچھ بولے ایک دوسرے کی محبت میں صبح کردیتے ہیں، اس سین کے وجود میں آتے تک دونوں ایک دوسرے سے راہیں جدا کرچکے تھے حالانکہ اس منظر نے کروڑوں لوگوں کو دم بخود کردیا تھا۔ مغل اعظم کا یہ سین آج بھی کروڑوں لوگ پسندکرتے ہیں۔
X
8/12
مدھوبالا کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہ تھی۔ شمی کپور نے تو اعلانیہ اپنی والدہ سے کہہ دیا کہ وہ شادی کریں گے تو مدھوبالا سے۔ بھارت بھوشن اور پردیپ کمار کے نام بھی مدھوبالا کو چاہنے والوں کی فہرست میں شامل کئے جاتے ہیں۔ لیکن بالآخر مدھوبالا کو اپنی شریک حیات بنانے میں کامیاب ہوئے کشور کمار۔ کشور کمار کی یہ دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی شادی اُسی روما دیوی سے ہوئی تھی جس نے بچپن میں فلم ’جوار بھاٹا‘ میں بے بی ممتاز (مدھوبالا کا پرانا فلمی نام)کے ساتھ چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ دراصل مدھوبالا کی یہ خواہش تھی کہ وہ ایک سہاگن کے طور پر مرے، لہٰذا ۱۶؍نومبر ۱۹۶۰ء کو کشور کمار نے عبداللہ نام اختیار کیا اور مدھو بالا سے نکاح کرلیا۔
X
9/12
اس سے قبل مدھوبالا نے کشور کمار کے ساتھ ۱۹۵۶ء میں فلم ’ڈھاکے کی ململ‘، ۱۹۵۸ء میں ’چلتی کا نام گاڑی‘ اور ۱۹۶۰ء میں فلم ’محلوں کے خواب‘ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ کشور کمار سے شادی کے بعد مدھوبالا نے ۱۹۶۱ء میں فلم ’بوائے فرینڈ، جھمرو، پاسپورٹ اور ۱۹۶۲ء میں فلم ہاف ٹکٹ، ۱۹۶۴ء میں فلم شرابی اور ۱۹۷۰ء میں اپنی آخری فلم جوالا میں سنیل دت کے ساتھ کام کیا۔
X
10/12
کشور کمار نے مدھوبالا کو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کی مگر ان کی حالت دن بہ دن بگڑتی ہی رہی۔ مدھوبالا کے دل کی بیماری کا پتہ ۱۹۵۰ء میں اُس وقت لگا تھا جب دل کی جراحی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ کشور کمار علاج کیلئے مدھوبالا کو لندن بھی لے گئے مگر وہاں ڈاکٹروں نے ان کے دل کی سرجری کرنے سے اس لئے منع کر دیا کیونکہ ان کو یہ خطرہ تھا کہ مدھوبالا آپریشن کے درمیان ہی مر سکتی ہیں۔ دھیرے دھیرے تقریباً تمام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔
X
11/12
انہیں برابر خون کی اُلٹیاں ہوتی رہیں اور آخرکار ۲۳؍فروری ۱۹۶۹ء کو وہ گھڑی آن پہنچی جب مدھوبالا نے نہایت بے بسی کے عالم میں کشور کمار سے کہا کہ میں مرنا نہیں چاہتی، مجھے بچالو۔ یہ اُن کے آخری الفاظ تھے اور پھر چند لمحوں بعد ہی ’مغل اعظم‘ کی انارکلی کو زندہ کرنے والی مدھوبالا نے اپنے خالقِ حقیقی کو لبیک کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آنکھیں موند لیں۔ انتقال کے وقت مدھوبالا کی عمر ۳۶؍ سال تھی۔ ان کی تدفین جوہو مسلم قبرستان میں عمل میں آئی تھی۔
X
12/12
اپنی مختصر زندگی میں مدھو بالا نے چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں سے زیادہ تر سپر ہٹ رہیں لیکن دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالاکی جوڑی کو دیکھنے والوں نے بہت پسند کیا۔ مدھو بالا اپنی خوابناک آنکھوں اور حسن کی وجہ سے بہت مشہور تھیں لیکن جو لوگ ان کو حقیقی زندگی میں دیکھا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ کیمرہ، اسکرین پرمدھو بالا کے حسن کو بمشکل ’نصف ‘ہی دکھا پاتا تھا۔