فلموں کی کامیابی کی کریڈٹ عموماً فلموں کے ہیروز کو دی جاتی ہے۔ ہیرو کے علاوہ اگرکسی کو کریڈٹ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو فلم کے ہدایت کار، موسیقار، نغمہ نگار، فلم کی کہانی یا پھر فلم کی ہیروئن کو دی جاتی ہے۔ ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب فلموں کے ویلن کو یاد کیا جائے اور فلموں کی کامیابی کا سہرا اُن کے سر باندھا جائے۔ اس کے باوجود ایسی فلموں کی بڑی تعداد ہے جن میں منفی کردار ادا کرنے والے فنکاروں کو سراہا گیا ہے۔ ذیل میں ہم بالی ووڈ کی ۵؍ ایسی فلموں کا تذکرہ کریں گے جن میں ہیرو سے زیادہ ویلن کو پسند کیا گیا ہے اور فلموں کی کامیابی کا کریڈٹ انہیں دیا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این
شعلے (امجد خان): ۱۵؍ اگست۱۹۷۵ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم کو صدی کی بہترین فلم کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اس فلم کا شمار بالی ووڈ کی ۱۰؍ کامیاب ترین فلموں میں بھی ہوتا ہے۔ جی پی سپی کی اس فلم کے ہدایت کار ان کے بیٹے رمیش سپی ہیں جبکہ کہانی نویس سلیم جاوید ہیں۔ کوئی فلم کامیاب ہوتی ہے تو اس کے تمام پہلوؤں کی تعریف کی جاتی ہے۔ کچھ اسی طرح سے ’شعلے‘ کی بھی تعریف ہوتی ہے لیکن فلم میں ’گبر‘ کے طورپر جس طرح کی اداکاری امجد خان نے کی ہے، اس کی پزیرائی ہر کسی نے کی ہے۔ فلم کا کردار گبر ایک اصلی ڈاکو گبر سنگھ پر مبنی ہے جس نے پانچویں دہائی میں مدھیہ پردیش کے بھنڈ میں پولیس کی ناکوں میں دم کر رکھا تھا۔ ۱۳؍ نومبر۱۹۵۹ء کو پولیس کے ساتھ ایک تصادم میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ فلم شائقین نے شعلے میں امجد خان کوجب گبر کے طور پر دیکھا تو مدھیہ پردیش کے گبر سنگھ کی یاد تازہ ہوگئی تھی کیونکہ بات بہت زیادہ پرانی نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکو گبر سنگھ نے مخبری کے شبہ میں۱۹۵۷ء میں ایک ہی گاؤں کے۲۱؍ بچوں کو گولیوں سے بھون دیا تھا، جس کی وجہ سے بڑوں کے ساتھ ہی بچوں پر بھی گبر سنگھ کی دہشت بیٹھ گئی تھی۔ فلم نویسوں کے ذہن میں شاید وہی واقعہ رہا ہوگا جب انہوں نے وہ مشہور مکالمہ لکھا تھا جس میں گبر سنگھ کہتا ہے کہ ’’یہاں سے پچاس پچاس کوس دور جب رات کو کوئی بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹا سو جا ورنہ گبر آجائے گا۔‘‘ اس فلم کی کامیابی میں گبر سنگھ یعنی امجد خان کا بہت اہم کردار تھا۔
مسٹر انڈیا ( امریش پوری): ۲۵؍ مئی ۱۹۸۷ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم کے مرکزی کردار انل کپور اور سری دیوی ہیں لیکن فلم کی کامیابی کی کریڈٹ ’موگیمبو‘ کے کردارکو ملا جسے امریش پوری نے ادا کیا ہے۔ ان کے ذریعہ ادا کیا گیامکالمہ ’موگیمبو خوش ہوا‘ اتنا مشہور ہوا کہ عام بول چال میں بھی استعمال ہونے لگا۔ بونی کپور کی اس فلم کے ہدایت کار شیکھرکپور ہیں۔ اس فلم کی کہانی بھی شعلے کی مشہور رائٹر جوڑی ’سلیم جاوید‘ کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔۳؍ کروڑ ۸۰؍ لاکھ روپے کے بجٹ والی اس فلم نے ۱۰؍ کروڑ سے زائد کا کاروبار کیا تھا۔ فلم کامیاب ہوئی تو اس کا فائدہ فلم سے وابستہ ہر فرد کو ملا لیکن جو شہرت امریش پوری کے حصے میں آئی، وہ اور کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ فلم ہر لحاظ سے کامیاب رہی، اس میں شامل تمام اداکاروں کی اداکاری کی تعریف ہوئی، ہدایت کاری، موسیقی، رقص، نغمے اور فوٹو گرافی کی بھی سراہنا ہوئی البتہ سب سے زیادہ شہرت موگیمبو کے اُس مکالمے ’موگیمبو خوش ہوا ‘ کو ملی جو فلم میں امریش پوری کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کردار کیلئے امریش پوری فلم سازوں کی پہلی پسند نہیں تھے۔ اس سے قبل اس کردار کیلئے انوپم کھیر کا نام زیر غور تھا لیکن کوئی بات ہوئی جس کی وجہ سے امریش پوری کا نام فائنل ہوا اور انہوں نے اپنی کارکردگی سے فلم سازوں کے فیصلے کو درست ٹھہرایا۔
ڈر (شاہ رخ خان): ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۳ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے سنیما گھروں میں لرزہ طاری کردیاتھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہیروز ، منفی کردار جلدی قبول نہیں کرتے تھے لیکن شاہ رخ خان نے اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں ہی میں جرأت کا مظاہرہ کیا اور زبردست کامیابی حاصل کی۔ فلم میں انہوں نے ویلن کاکردار ادا کیا ہے ،اس کے باوجود فلم شائقین کی ہمدردریاں ان کے ساتھ رہیں۔ فلم میں ہکلاتے ہوئے ان کے ذریعہ ادا کیا گیا یہ مکالمہ ’تم میری ہو کرن‘ کافی پسند کیا گیا اور اُن دنوں جب فلم ریلیز ہوئی تھی، نوجوانوں میں کافی مقبول ہوا تھا۔۳؍ کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے ۲۱؍ کروڑ سے زیادہ کا کاروبار کیا تھا۔ یش چوپڑہ نے اپنی اس فلم کی ہدایت کاری خود ہی کی ہے جبکہ اس کی کہانی جاوید صدیقی اور ہنی ایرانی نے تحریر کی ہے۔ فلم میں مرکزی سنی دیول اور جوہی چاولہ کا ہے لیکن شہرت و مقبولیت شاہ رخ خان کے حصے میں آئی۔ فلم ریلیز ہوئی اور کامیاب ہوئی اوراس کے تمام فنکاروں کی تعریف بھی ہوئی لیکن کہا جاتا ہے کہ فلم ساز یش چوپڑہ کی پہلی پسند نہ تو شاہ رخ خان تھے، نہ ہی سنی دیول اور جوہی چاولہ۔ اس فلم میں منفی کردار ادا کرنے کے بعد شاہ رخ خان نہ صرف فلم شائقین کے دلوں پر چھا گئے بلکہ وہ فلمسازوں کی بھی پہلی پسند بن گئے۔
اومکارہ (سیف علی خان): ۲۸؍ جولائی ۲۰۰۶ءکو ریلیز ہونے والی یہ فلم مشہورڈراما نویس شیکسپیئر کے ڈرامے ’اوتھیلو‘ سے ماخوذ ہے۔ وشال بھاردواج کی ہدایت میں بننے والی یہ فلم ملٹی اسٹارر ہے لیکن اس فلم میں سب سے زیادہ شہرت سیف علی خان کو ملی جنہوں نے ’ایشور لنگڑا تیاگی‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کردار منفی تھا۔ اس کے علاوہ اس فلم میں اجے دیوگن،کرینہ کپور،کونکناسین شرما، وویک اوبیرائے، بپاشا بسو اور نصیرالدین شاہ جیسے بڑے فنکار بھی ہیں۔ اس فلم نے نہ صرف باکس آفس پر نمایاں کامیابی حاصل کی تھی بلکہ ایوارڈ بھی خوب ملے تھے۔ اس فلم کو فلم فیئر ایوارڈ کیلئے کل ۱۷؍ زمروں میں نامزد کیا گیا تھا اور اُس سال سب سے زیادہ ۹؍ ایوارڈ ملے بھی تھے۔اس فلم کی چھوٹے بڑے ایوارڈ کے ۱۰۶؍ زمروں میں نامزدگی عمل میں آئی تھی جن میں سے ۴۱؍ میں کامیابی بھی ملی۔ سب سے زیادہ ایوارڈ سیف علی خان کے حصے میں آئے۔
ایک ویلن (رتیش دیشمکھ): ۲۷؍ جون ۲۰۱۴ءکو ریلیز ہونےوالی ایکتا کپور کی اس فلم کے ہدایت کار موہت سوری تھے۔ اس فلم میں سدھارتھ ملہوتراہ مرکزی کردار میں تھے لیکن بازی رتیش دیشمکھ کے ہاتھ لگی جنہوں نے منفی کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا تھا اورانہیں کئی ایوارڈ بھی ملے۔ ۳۹؍ کروڑ کے بجٹ والی اس فلم نے ۱۷۰؍ کروڑ کا کاروبار کیا تھا۔