شاہ رخ خان نے اپنے کریئر کا آغاز ۱۹۸۹ء میں دور درشن کے ’’فوجی‘‘ سے کیا تھا۔ اپنے متعدد انٹرویو میں سپر اسٹار نے کہا ہے کہ وہ فلموں میں چھوٹے موٹے رول یا پھر ویلن کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے مگر قسمت نے انہیں میگا اسٹار بنادیا۔ اپنے اسٹارڈم کی بدولت شاہ رخ، مداحوں کی ایک بڑی تعداد کو سنیما گھروں میں کھینچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جانئے ان کے متعلق ۱۰؍ دلچسپ باتیں۔ تمام تصاویر: آئی این این، یوٹیوب، ایکس، انسٹاگرام
شاہ رخ خان نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ بنگلور، ہندوستان میں بھی گزارا ہے۔ بنگلور میں ان کے دادا چیف انجینئر کی خدمات انجام دیتے تھے۔
اسکول کے زمانے میں شاہ رخ خان ’’ہندی‘‘ زبان میں اچھے نہیں تھے۔ انہیں ہندی پڑھنے پر مجبور کرنے کیلئے ان کی والدہ یہ وعدہ کرتی تھیں کہ اگر انہوں نے ہندی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تووہ انہیں فلم دکھائیں گی ۔نوعمری میں فلمیں دیکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ شاہ رخ کی مشہور فلموں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اسکرپٹ پڑھے بغیر ہی فلم کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے تھے۔شاہ رخ خان کو آدتیہ چوپڑہ کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔
شاہ رخ خان کو ان کا اسکرین نام ’’راہل ‘‘کافی پسند ہے۔ انہوں نے اب تک اپنی ۹؍ فلموں میں یہ نام استعمال کیا ہے جن میں ’’ڈر‘‘، ’’زمانہ دیوانہ‘‘، ’’دل تو پاگل ہے‘‘، ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘، ’’یس باس‘‘ اور ’’چنئی ایکسپریس‘‘ قابل ذکر ہیں۔
شاہ رخ خان آئسکریم نہیں کھاتے۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے مداحوں کو بتایا تھا کہ ’’انہوں نے حال ہی میں آئسکریم کا مزہ چکھا ہے۔‘‘ انہیں میٹھے پکوان نہیں پسند ہیں۔
شاہ رخ خان کو ’’۵۵۵‘‘ نمبر سے انسیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام کاروں کے نمبر پلیٹ ’’۵۵۵‘‘ ہیں۔ یہی نہیں، شاہ رخ خان کے عملے کے متعدد لوگوں کے موبائل نمبر میں ’’۵۵۵‘‘ موجود ہیں۔
شاہ رخ خان کو کئی اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا ہے۔ انہیں یہ ڈگریاں اپنی انسان دوستی، اخوانیت، انسانیت اور بطور اداکار عالمی سطح پر ان کی کامیابی کیلئے دی گئی ہیں۔
ملائیشیا نے انہیں’’نائٹ ہُڈ‘‘ خطاب دیا ہے۔ وہ پہلے ہندوستانی اداکار ہیں جنہیں جنوبی ملاکہ کے گورنر نے ’’نائٹ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔اس کے بعد سے انہیں ’’داتک شاہ رخ خان‘‘ کہا جاتا ہے۔
انہیں اب تک۳۰۰؍ سے زائد ایوارڈ تفویض کئے جاچکے ہیں جن میں ۱۴؍فلم فیئرایوارڈ، پدم شری اور فرانسیسی حکومت کی جانب سے ’’لیجن آف آنر‘‘ قابل ذکر ہیں۔
۲۰۱۸ء میں ورلڈ اکنامک فارم نے انہیں ملک میں خواتین اور بچوں کے حقوق کو فروغ دینے کیلئے کرسٹل ایوارڈ سے نوازا تھا۔