محمد رفیع کی آواز آج بھی نئی نسلوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے اور ان کی آواز کا جادو ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے پرستاروں میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ تصویر : آئی این این
جب محمد رفیع اور مکیش انڈسٹری میں آئے تو مقابلہ آرائی کافی بڑھ گئی تھی۔میں بھی گلوکاری کو سنجیدگی سے لینے لگا۔میں بلندی پر اس لئے نہیں پہنچ سکا کیوں کہ رفیع صاحب مجھ سے اور ہم سب سے بہت بہتر تھے۔وہ جس انداز میں گاتے تھے اس طرح کوئی نہیں گا سکتا تھا۔ رفیع صاحب اپنے آپ میں ایک سنگیت کا گھرانہ تھے۔ وہ جب گئے تو اپنے ساتھ گھرانہ بھی لے گئے۔بہت لوگوں نے کوشش کی ان کی طرح گانے کی لیکن کوئی گا نہیں سکا۔میرے خیال سےرفیع صاحب کی طرح کوئی کبھی گا بھی نہیں سکےگا۔
رفیع صاحب کے بارے میں کیا کہا جائے۔وہ بھگوان کے آدمی تھے،بہت ہی پُرسکون رہتے تھے۔کسی قسم کا کوئی عیب نہیں تھا ان میں۔ان کے بس ۲؍ہی شوق تھے کھانا اور گانا۔ہم نے سیکڑوں گانے ساتھ گائے ہیں۔آج بھی ان گانوں کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان جیسی آواز نہ پہلے آئی تھی اور میرے خیال میں نہ آئندہ ۱۰۰؍ برسوں میں کوئی ان کی طرح گا سکےگا۔اپنی آواز کو اداکار کے انداز میں ڈھالنے کا ان کا ہنر شاندار تھا۔آپ آنکھ بند کرکے ان کا گانا سنیں تو خود بہ خود آپ سمجھ جائیںگے یہ گانا فلاں اداکار پر فلمایا گیا ہوگا۔
رفیع صاحب کی آواز میں جادو تھا۔ان کی آواز سن کر دل کو سکون ملتا تھا۔ان کے نغمے لوگوں کے دلوں پر اپنی چھاپ چھوڑتے تھے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کئی گانے ریکارڈ کئے ہیں۔ کام کے تئیں ان کی سنجیدگی قابل رشک تھی۔وہ عظیم گلوکار تھے۔کسی بھی طرح کا گانا ہو وہ بہت ہی آسانی سے گا لیتے تھے۔ انہوں نے میرے لئے بھی گانا گایا ہے جو میرے لئے قابل فخر بات ہے۔ہم دونوں میں کسی قسم کا کوئی مقابلہ نہیں تھا بلکہ ہمارے گانے کا انداز مختلف تھا۔رفیع صاحب گھنٹوں گانے کی ریہرسل کرتے تھے تاکہ گانا پرفیکٹ ہوسکے۔
رفیع صاحب بہت اچھے گلوکار تو تھے ہی، بہت ہی نیک آدمی بھی تھے۔ جب کوئی میوزک ڈائریکٹر ان سے کہتا کہ یہ ٹھیک نہیں ہورہا ہے یا یہ لائن ٹھیک سے نہیں گائی گئی تو وہ اتنے بڑے سنگر ہونے کے باجود کبھی یہ نہیں کہتے تھے کہ سب ٹھیک ہے بلکہ ہمیشہ یہی کہتے کہ جی اچھا دوبارہ ریہرسل کرتے ہیں، میں غلطی کو درست کر لوںگا۔رفیع صاحب بہت ہی نرم دل انسان تھے۔غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کیلئے ہمیشہ آگے رہتے تھے۔وہ خدا کے بندے تھے۔ان کے جیسا گلوکار اور انسان شاید ہی کوئی دوسرا ملے۔
رفیع صاحب نہ صرف شاندار آواز کے مالک تھے بلکہ انہیں اوپر والے نے درد مندانہ دل بھی دیا تھا۔ان کی آواز ہم سب سے الگ تھی وہ چاہے رومانٹک گانا گائیں، درد میں ڈوبے گیت ہوں یا پھر قوالی۔وہ اپنی آواز کو کردار کے مطابق ڈھال لیتے تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے بھی ان کے ساتھ گانے کا موقع ملا اور میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہر بار مجھے رفیع صاحب سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مکیش کے بیٹے نتن مکیش نےبھی ایک بارکہا تھا کہ ان کے والد مکیش نے ’دن ڈھل جائے‘ گانے پررفیع صاحب کو فون کیا تھا اور ان کی تعریف کی تھی۔