اس علاقے میں واقع قدیم قلعے، تاریخی عمارتیں اور جھیلیں کئی تاریخی واقعات اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہیں، جو آپ کو سوچنے پر مجبور کردیں گے۔
EPAPER
Updated: April 30, 2025, 11:33 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
اس علاقے میں واقع قدیم قلعے، تاریخی عمارتیں اور جھیلیں کئی تاریخی واقعات اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہیں، جو آپ کو سوچنے پر مجبور کردیں گے۔
سرخ ریتیلی چٹانوں کے درمیان، خاموش اور پُرسکون اگستیہ جھیل کے کنارے بسا ہوا بدامی، کرناٹک کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی سحر انگیزی سے آپ کا دل موہ لے گا۔ یہ وہ علاقہ ہےجو چالوکیہ حکمرانوں کے دور میں بسا اور آج بھی اپنی تاریخی عظمت کے سبب سیاحوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ یہاں کا دراوڑی طرزِ تعمیر، سنگ تراشی کے شاہکار اور یادگار آثار قدیمہ بدامی کو دیگر تمام تاریخی مقامات سے ممتاز کرتے ہیں۔
بدامی کے حیران کن غار اور چٹانوں پر بنی ہوئی قدیم مورتیاں، جو آج سے بارہ سو برس قبل تراشی گئی تھیں، ہندوستانی فن تعمیر کی عظمت کا زندہ ثبوت پیش کرتی ہیں۔ بدامی کی سیاحت کے لیے موزوں مہینے جولائی سے مارچ تک ہیں۔ یہاں درجہ حرارت سال بھرخاصی حد تک معتدل رہتا ہے، بارش اوسط سے لے کر شدید تک ہوتی ہے جبکہ سردیاں نہایت نرم اور خوشگوار گزرتی ہیں۔
بدامی قلعہ
بدامی قلعہ شہر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک بلند ٹیلے پر واقع ہے۔ یہ قلعہ چالوکیہ بادشاہ پلکیشی نے تعمیر کرایا تھا اور آج بدامی کی تاریخ کا روشن باب سمجھا جاتا ہے۔ پلاوا حکمرانوں کے ہاتھوں یہ قلعہ تباہ و برباد بھی ہوا مگر بعد ازاں دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس میں کئی نئی عمارتیں شامل کی گئیں۔ یہ قلعہ دوہری فصیلوں کے سبب محفوظ ہے اور یہاں سے پورےبدامی شہر اور اس کے معماری عجائبات کا حسیں منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ قلعے کے وسط میں ایک مسجد نما عمارت بھی ہے جسے ٹیپو سلطان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ خاموش قلعہ کئی حملوں کا گواہ رہا ہے، مگر آج بھی اپنے وقار کے ساتھ ایستادہ ہے۔
آثارِ قدیمہ میوزیم
بدامی قلعےکے دامن میں واقع یہ عجائب گھر بدامی بس اسٹیشن سے محض ایک کلومیٹر دور ہے۔ شمال کی طرف اگستیہ جھیل سے متصل یہ عجائب گھر ۱۹۷۹ءمیں قائم ہوا اور ۱۹۸۲ء میں مکمل میوزیم کی صورت اختیار کر گیا۔ یہاں قدیم پتھریلے اوزار، تراشیدہ مجسمے، آثارِ تعمیرات، مختلف کتبے اور ہیرو اسٹونز (قربانیوں کی یادگاریں ) محفوظ ہیں۔ علاوہ ازیں شیو کے مختلف روپوں کی نایاب نمائشی اشیاء بھی یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اگستیہ جھیل
بدامی بس اسٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر دور یہ جھیل پانچویں صدی عیسوی میں بنائی گئی تھی۔ مقامی روایات کےمطابق، یہ جھیل روحانی اور شفائی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ جھیل نہ صرف مقامی لوگوں کی عقیدت کا مرکز ہے بلکہ یہاں نہانے سے گناہوں کے دھلنے کا بھی اعتقاد ہے۔ جھیل کے مشرقی کنارے پر بھوت ناتھ مندر واقع ہیں، جبکہ جنوب مغرب میں غار مندروں کا منظر نظر آتا ہے۔ اگرچہ یہاں تیرنا ممنوع ہے، مگر کیمرے کی آنکھ سے یہاں کی حسین پہاڑیاں اور قدیم عمارتیں قید کرنا ایک لازمی تجربہ ہے۔
آکا-تنگی آبشار
اگر آپ فطرت اور مہم جوئی کے شوقین ہیں تو بدامی کے قریب واقع آکا-تنگی آبشار ضرور دیکھیں۔ یہاں پانی کی گرجتی ہوئی دھاریں اور اطراف کا ٹھنڈا موسم ایک ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں جو مدتوں یاد رہتا ہے۔ آکا-تنگی آبشار، دریائے شراوتی کاپہلا آبشار ہے، اور یہاں کی سیر بدامی کے سفر کو مکمل کرتی ہے۔
آہولے
کرناٹک میں واقع یہ ایک مشہور تاریخی مقام ہے جہاں چالوکیہ عہدکےتقریباً ۱۲۵؍ قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی جھلک ملتی ہے۔ آہولے ایک زمانے میں چالوکیہ سلطنت کا دارالحکومت تھا اور آج یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے لیے نامزد مقامات میں شامل ہے۔ پتھروں پر کی گئی کاریگری دیکھ کرانسان حیران رہ جاتا ہے۔
پٹڈکل
پٹڈکل بھی کرناٹک کا ایک قابلِ فخر مقام ہےجسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ مالاپربھا ندی کے کنارے واقع اس مقام پر ہندو اور جین مذاہب کے قدیم مندر موجود ہیں، جو چوتھی صدی عیسوی کی تہذیبی شان کا آئینہ دار ہیں۔ یہاں شیو کی عبادت ہوتی ہے اور مندر کا طرزِ تعمیر شمالی و جنوبی ہند کی معمارانہ روایات کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔