• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’کرائم بیٹ‘ نام جتنا متاثر کن ہے ویب سیریز اتنی نہیں ہے

Updated: February 23, 2025, 12:09 PM IST | Mumbai

حقائق کو اجاگر کرنے کے نام پر ۱۵؍ تال ۲۰؍ سال پرانے واقعات کو دکھایا گیا ہے، کہانی میں آج کے حالات بتانے سے گریز کیا گیا ہے۔

Saba Azad, Saqib Saleem and Nusrat in a scene from `Crime Beat`. Photo: INN.
’کرائم بیٹ‘ کے ایک سین میں صبا آزاد، ثاقب سلیم اور نصرت۔ تصویر:آئی این این۔

’کرائم بیٹ‘ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو کرائم رپورٹر بننے کیلئے وارانسی سے دہلی آیا ہے۔ یہاں وہ ایک اخبار سے وابستہ ہونے کے بعد خبروں کی تلاش میں نکلتا ہے اور اس کے ہاتھ لگتے ہیں صحافت، سیاست اور جرائم کے آپسی رشتوں کے گہرے راز۔ اگر ۸؍ ایپی سوڈ پر مبنی اس ویب سیریز کو دیکھا جائے تو اس میں سیاست اور جرائم کے رشتوں کے حقائق کر اجاگر کرنے کوشش کے باوجود یہ شو ناظرین کو اپنے ساتھ باندھے رکھنے میں کامیاب نہیں  ہوتا۔ 
ناول پر مبنی ویب سیریز 
زی ۵؍ کے بینر تلے بنائی گئی یہ ویب سیریز دراصل ’ دی پرائس یو پے‘ نامی کتاب کی کہانی پر بنائی گئی ہے۔ اس کی شروعات ابھیشیک سنہا( ثاقب) نامی نوجوان کی زندگی سے ہوتی ہے جو وارانسی سے دہلی آیا ہے۔ وہ ایک مشہور کرائم رپورٹر بننا چاہتا ہے۔ اسے ایک اخبار میں کام بھی مل جاتا ہے۔ اس کے اوپر دبائو ہے کہ وہ کوئی سنسنی خیز خبر ڈھونڈ نکالے ۔ اس کیلئے وہ دہلی شہر کے چکر کاٹتا ہے۔ اسی دوران اسے معلوم پڑتا ہے کہ جرائم کی دنیا کا مشہور نام بنی چودھری ( راہل بھٹ) جو مفرور ہے ہندوستان واپس آ رہا ہے۔ 
بنی چودھری اب سیاست میں اپنے پیر جمانا چاہتا ہے۔ اس کیلئے وہ شہر میں مختلف سماجی کام انجام دینے شروع کرتا ہے جو دراصل جرائم اور سیاست کے رشتوں کا ہی ایک حصہ ہوتے ہیں۔ وہ ان معاملات کو اٹھاتا ہے جن میں  گھوٹالے ہوئے تھے۔ ابھیشیک سنہا بھی دیگر رپورٹرس کی طرح سنسنی خیز خبر کی تلاش میں بنی چودھری کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ اس دوران اسے معلوم ہوتا ہے کہ کیسے پولیس، سیاستداں اور جرائم کی دنیا کے سرغنہ سب ایک دوسرے کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ صحافت محض ایک رسم ہے جو نبھائی جا رہی ہے۔ ابھیشیک اس دنیا میں اتر جاتا ہے اور ہر دن وہ جرم اور سازش کے ایک نئے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ 
 اسی دوران اس کی ملاقات مایا ماتھر ( صبا آزاد) سے ہوتی ہے جو ایک فوٹوگرافر پشو پتی ( کشور کدم) کی اسسٹنٹ ہے۔ مایا کے ملنے سے ابھیشیک کو حالات سے لڑنے کا ایک نیا حوصلہ ملتا ہے۔ مراٹھی فلموں کی مشہور اداکارہ سئی تمہنکر بھی اس ویب سیریز میں دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے ارچنا پانڈے کا کردار نبھایا ہے۔ اداری اچھی ہے مگر ان دونوں ہی لڑکیوں کا کردار اتنا متاثر کن نہیں ہے کیونکہ کہانی میں مرد کردار حاوی ہیں۔ 
کمزور اسکرین پلے 
اس کی ہدایت کاری تجربہ کار ڈائریکٹر سدھیر مشرا نے کی ہے۔ سنجیو کول نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ لوگ سدھیر مشرا کا نام دیکھ کر ہی اس ویب سیریز کو ایک بار ضرور دیکھیں گے لیکن اس میں اسکرین پلے میں کئی خامیاں نظر آتی ہیں۔ ہر چند کہ اس میں آج کے حالات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہر سین میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کے سبب حقائق بھی مصنوعی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ 
ثاقب سلیم کی اداکاری غنیمت ہے۔ انہوں نے کافی محنت کی ہے۔ البتہ صبا آزاد کا کردار ابھر نہیں پایا ہے۔ ویب سیریز دیکھنے والوں پر اتنا تاثر نہیں چھوڑ پاتا۔ راہل بھٹ کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اداکاری ٹھیک ٹھاک ہے لیکن منظرنامے کی اتھل پتھل کے سبب کوئی بھی کردار ٹھیک طریقے سے سامعین کو اپنی طرف کھینچ نہیں پاتا۔ کہانی میں حقائق کے نام پر پرانے واقعات کو دکھایا گیا ہے جیسے کامن ویلتھ گیمز گھوٹالا، اپہار سنیما کی آتشزدگی اور ۲۰۱۱ ء ورلڈ کپ وغیرہ۔ پتہ نہیں  کیوں آج کے بدعنوانی کے واقعات کو کیوں اس میں نہیں بتایا گیا۔ ان واقعات کے سبب سامع خود کو ماضی کی دنیا میں محسوس کرتا ہے جبکہ اس وقت اس سے بڑے بڑے سانحات اور جرائم موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ویب سیریز سامعین کو حقائق کی دنیا سے دور لے جاتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ بیشتر ماہرین نے اس ویب سیریز کے تعلق سے یہی لکھا ہے کہ آج کے دور اور کرائم بیٹ کی کہانی کے درمیان کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔ خیر سے ویب سیریز کو ایک بار تو دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو دوبارہ دیکھنے پر آمادہ کر لے تو یہ اس کی کامیابی ہے جو ذرا مشکل معلوم ہوتی ہے۔ البتہ لوگ اپنے پسندیدہ اداکاروں اور سدھیر مشرا کے سبب تو اس ویب سیریز کو دیکھیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK