ایک اچھی فلم طنز و مزاح، برجستہ مکالموں، مختلف قسم کے جذبات اور سماجی پیغام کا امتزاج ہوتی ہے، اور ’ڈنکی‘ میں یہ تمام چیزیں ہیں۔
EPAPER
Updated: December 23, 2023, 10:12 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ایک اچھی فلم طنز و مزاح، برجستہ مکالموں، مختلف قسم کے جذبات اور سماجی پیغام کا امتزاج ہوتی ہے، اور ’ڈنکی‘ میں یہ تمام چیزیں ہیں۔
ڈنکی (Dunki)
سنیما گھروں میں ہندی زبان میں ریلیز
کاسٹ: شاہ رخ خان، تاپسی پنو، وکرم کوچر، انل گروور، بومن ایرانی، وکی کوشل وغیرہ۔
ہدایتکار اورایڈیٹر: راجکمار ہیرانی
سنیماٹوگرافی: سی کے مرلی دھرن، منوش نندن، امیت رائے، کمار پنکج
مصنف: راجکمار ہیرانی، ابھیجیت جوشی، کنیکا ڈھلون
موسیقار: امن پنت، پریتم
فلمساز: گوری خان، راجکمار ہیرانی، جیوتی دیشپانڈے
ریٹنگ: ***
راجکمار ہیرانی کا شمار اُن ہدایتکاروں میں ہوتا ہے جن کی فلموں میں کہانی اور اس کے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا جاتا ہے۔ ان کی فلموں میں ایکشن نہیں ہوتا بلکہ یہ طنز ومزاح اور سماجی پیغام کا امتزاج ہوتی ہیں۔ ان میں آسان مگر بااثر مکالمے ہوتے ہیں اور وی ایف ایکس کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے۔ فلم ’سنجو‘ کے ۵؍ سال بعد راجکمار ہیرانی کی فلم ’ڈنکی‘ میں شاہ رخ خان، تاپسی پنو، وکرم کوچر، انل گروور اور وکی کوشل نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔
کہانی: فلم کا موضوع غیر قانونی تارکین وطن ہیں یعنی ایسے افراد جو بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں امیر اور خوشحال ممالک کی سرحدوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فلم میں ۱۹۹۵ء کا دور دکھایا گیا ہے۔ منو (تاپسی پنو)، وکرم کوچر (بگو)، انل گروور (بلی) اور وکی کوشل (سکھی) کا تعلق لالٹو، پنجاب سے ہے اور سبھی لندن جانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر حالات ان کا ساتھ نہیں دے رہےہیں ۔ ایسے میں ان کی زندگی میں ہارڈی (شاہ رخ خان) داخل ہوتاہے۔ اور پھر سبھی کے لندن جانے کے خوابوں کو پَر لگ جاتے ہیں ۔ کوششیں جاری رہتی ہیں مگر خواب پورے نہیں ہوتے۔تاہم، ایک دلخراش واقعے کے بعد یہ سبھی ’ڈنکی‘کے ذریعے لندن جانے کا منصوبہ بناتےہیں ۔ ڈنکی یعنی غیر قانونی طریقے سے کسی ملک میں داخل ہونا اور وہاں جج کے سامنے یہ کہتے ہوئے پناہ گاہ کی گزارش کرنا کہ ’’میرے ملک میں میری جان کو خطرہ ہے۔‘‘
ہدایتکاری اور ایڈیٹنگ: راجکمار ہیرانی نے بطور ہدایتکار اسکرپٹ کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ بھی آسان انداز میں کی گئی ہے یعنی ماضی کو حال سے جوڑنے والے مناظرمیں کوئی خامی یا کمی محسوس نہیں ہوتی۔ مزاح سے بھرپور ’’ڈنکی‘‘ کے ذریعے ’’ڈنکی فلائٹ‘‘ جیسے سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح لوگ بہتر زندگی کے خواب سجائے ترقی یافتہ ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ٹوٹی پھوٹی کاروں اور کنٹینروں میں بیٹھ کر جنگلوں ، دریاؤں ، سمندروں اور صحراؤں کا سفر کرتے ہیں ۔ سفر میں پیش آنے والی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف ۲۵؍ فیصد افراد ہی’ڈنکی‘ کے سفر میں منزل تک زندہ پہنچ پاتے ہیں۔
اداکاری: فلم میں معاون اداکاروں نے زبردست کام کیا ہے، خاص طور پر وکی کوشل نےجو مہمان کردار کے طور پر نظر آئے مگر انہوں نے با اثر اداکاری سے اپنی پہلی فلم ’’مسان‘‘ کے کردار کی یاد تازہ کر دی۔اسی طرح بگو اور بلی نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ۔ شاہ رخ خان ’’کل ہو نہ ہو‘‘، ’’چک دے انڈیا‘‘ اور ’’ویر زارا‘‘ جیسی فلموں میں اپنی جذباتی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں جو اس فلم میں کم نظر آئےجبکہ فلم کے متعدد مناظر شاہ رخ سے اس قسم کی عمدہ اداکاری کی مانگ کرتےہیں (ایسا غالباً اینٹی ایجنگ میک اپ کے سبب ہےکیونکہ ان کے تاثرات ابھر کر نظر نہیں آئے) البتہ شاہ رخ خان اور تاپسی پنو کے مزاحیہ مناظر اور مکالمے قابل دید ہیں۔ بومن ایرانی کے ساتھ فلم کے سبھی اداکاروں نے اچھی اداکاری سے اپنے کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔
سنیماٹو گرافی (منظر نگاری): فلم میں وی ایف ایکس کا استعمال کم ہے مگر منظر نگاری کے محاذ پر یہ فلم کمزور ہے۔ اسی طرح ملبوسات اور دیگر اشیاء ۱۹۹۵ء کے زمانے سے میل نہیں کھاتیں اور متعدد مناظر میں ’’جدید‘‘ اشیاء نظر آجاتی ہیں ۔ تاہم، کسی بھی اچھی فلم کیلئےکہانی اور اسے پیش کرنےکا انداز اہم ہوتا ہے، اور ان شعبوں میں راجکمار ہیرانی نے بہترین کام کیا ہے۔
موسیقی: فلم میں ذہن پر نقش ہوجانے والے نغمے نہیں ہیں لیکن پرتیم کی موسیقی اور سونو نگم کی آواز میں پروسا گیا نغمہ ’’نکلے تھے کبھی ہم گھر سے‘‘ جسے جاوید اختر نے لکھا ہے، آپ کو وقتی طور پر جذباتی کردے گا۔ اسی طرح بیک گراؤنڈ موسیقی اور اداکاروں کی مشاقی نے جذباتی مناظر میں روح پھونک دی ہے۔
وبائی حالات کے بعد ہندوستانی سنیما کا رُخ بدل گیا ہے۔ اب ایکشن اور پرتشدد فلمیں ہی ناظرین کے دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ تاہم، ’ڈنکی‘ نے محبت اور حب وطن کا پیغام دیاہے۔ کہانی، ہدایتکاری اور اداکاری کے محاذ پر یہ فلم مستحکم ہے۔ اچھی کہانی، کامیڈی ، مکالمے، جذبات اور سماجی پیغام، راجکمار ہیرانی کی فلموں کا خاصہ ہیں اور ’’ڈنکی‘‘ میں یہ تمام چیزیں ہیں البتہ فلم کا کلائمیکس ’’تھری ایڈیٹس‘‘ اور ’’پی کے‘‘ جتنا پاور فل نہیں ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فلم کا کلائمیکس قابلِ پیش گوئی تھا۔ اسی طرح فلم انٹرول سے پہلے جتنی دلچسپ اور پرکشش ہے، اس کے بعد اتنی اثر دار نہیں رہ جاتی کیونکہ راجکمار ہیرانی نے اس میں ’’ڈنکی‘‘ کی حقیقت دکھانے کی کوشش کی ہے،جو کافی خوفناک ہے۔ اگر آپ ایکشن فلموں کے دلدادہ ہیں اور شاہ رخ خان کو ایکشن ہیرو کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ’’ڈنکی‘‘ آپ کی امیدوں پر پوری نہیں اترے گی لیکن اگر آپ مزاحیہ اور رومانوی شاہ رخ کو ان کے پرانے انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں تویہ فلم اپنے خاندان اور دوستوں کیساتھ ضرور دیکھئے۔