انگریز مصنفین کی کتاب پر مبنی سیریز میں آزادی سے قبل کے سیاسی واقعات اورملک کی تقسیم کےعوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 2:42 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai
انگریز مصنفین کی کتاب پر مبنی سیریز میں آزادی سے قبل کے سیاسی واقعات اورملک کی تقسیم کےعوامل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فریڈم ایٹ مڈ نائٹ (Freedom at Midnight)
اسٹریمنگ ایپ :سونی لیو(۷؍ایپی سوڈ)
اسٹار کاسٹ:سدھانت گپتا، چراغ ووہرا، راجندر چائولہ، عارف زکریا، ایرا دوبے، لیوک میک گبنی، کورڈیلیا بوگیجا، ملشکا مینڈوسا، راجندر کمار، کے سی شنکر
ڈائریکٹر:نکھل اڈوانی
رائٹر:ڈومنک لپیئر، نکھل اڈوانی، لیری کولنز، ادوتیا کرینگ داس، ابھینندن گپتا، گندیپ کور، ریونت سارا بھائی، دیویہ ندھی شرما
پروڈیوسر:نکھل اڈوانی، منیشا اڈوانی، سدھارتھ اتھا، مدھو بھوجوانی
موسیقی:اشوتوش پھاٹک
ایڈیٹنگ:شویتا وینکٹ
سنیماٹوگرافی: ملے پرکاش
کاسٹنگ:کاوش سنہا، میگداسوبولیوسکا
ریٹنگ: ***
برسوں پرانےانقلاب اور لاتعداد شہیدوں کی قربانیوں کے بعد ۱۹۴۷ءمیں برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بدلے ہندوستان کے دل پرتقسیم کا جو زخم لگا تھا، وہ آج ۷۷؍سال بعد بھی محسوس کیاجا رہا ہے۔ لیکن کیا مذہب کے نام پر ملک کی یہ تقسیم ضروری تھی؟ کیا اسے روکا جا سکتا تھا؟ پنڈت نہرو، مہاتما گاندھی، سردار پٹیل یا محمد علی جناح جیسے سیاست دانوں کا کیا موقف تھا جو ملک کے مستقبل سے متعلق اس اہم ترین فیصلے میں شامل تھے؟ نکھل اڈوانی کی ویب سیریز ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘تاریخ کی سب سے المناک سانحہ یعنی ملک کی تقسیم کے حوالے سے ایسے بہت سے اچھوتےصفحات پلٹتی ہے۔ یہ سیریزاسی نام کی معروف کتاب پرمبنی ہے جو لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے لکھی ہے، جو برطانوی راج کے غروب آفتاب کے بعد ایک آزاد ہندوستان کے قیام کا باعث بننے والے سیاسی اور سماجی حالات پر روشنی ڈالتی ہے۔
سیریز کی کہانی
کہانی ۱۹۴۶ءمیں کولکتہ میں ہونے والی ایک میٹنگ سے شروع ہوتی ہے، جہاں مہاتما گاندھی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہندوستان تقسیم ہوگا، جس پر باپونےجواب دیا - ہندوستان کا بٹوارہ ہونےسےپہلے میرے جسم کا بٹوارہ ہوگا۔ اس سیریز میں دکھایا گیا ہےکہ نہرو اور سردار پٹیل جیسےلیڈروں، جنہوں نے ابتدا میں گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مکمل سوراج کا مطالبہ کیا تھا، نے تقسیم کےبارے میں اپنے خیالات کو کیسے اور کن حالات میں بدلا؟۵۰۰؍ سے زیادہ ریاستوں کو متحد کرنے والے ولبھ بھائی کیوں محسوس کرتے ہیں کہ اگر انگلی کاٹ کرہاتھ بچایا جا سکتا ہے تو جناح کو پاکستان دینا بہتر ہوگا۔ جواہر لعل نہرو، جو سردار کی رائے سے کافی عرصے تک اختلاف رکھتے تھے، باپو کیخلاف کیسے ہوجاتےہیں ؟ جیسے جیسے کہانی آگےبڑھتی ہے ایسی کئی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سیریز محمد علی جناح کے خود کو مسلمانوں کا مسیحا کہنے کے پیچھے کی سیاست کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ کہانی کا ایک بہت ہی اہم کردار آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہے، جو ہندوستان چھوڑتے ہوئے اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کےساتھ ہی بنگال سے نواکھلی اور پنجاب سے بہار تک تقسیم سے پہلے شروع ہونے والے فسادات کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔
ہدایت کاری
ویسے، اتنے پیچیدہ موضوع پرمبنی کتاب کو اسکرین پر ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس لیے ہدایت کار نکھل اڈوانی نے ابھی نندن گپتا، منفرد کرینگ داس، گندیپ کور، دیویا ندھی شرما، ریونت سارابھائی اور ایتھن ٹیلر جیسے ۶؍مصنفین کی ایک بڑی ٹیم کو اکٹھا کیا ہے۔ بلاشبہ اس سے قبل بھی ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم پر بہت سی فلمیں بن چکی ہیں، لیکن وہ زیادہ تر انگریزوں کے مظالم اور ہندو مسلم تنازعہ پر مبنی تھیں، جب کہ یہ سیریزاس کے پیچھے کی سیاست کو سامنے لاتی ہے۔ اسے دیکھ کر تاریخ کے اوراق پلٹنے کا احساس ہوتا ہے۔ تیز رفتار کہانی دلچسپی کو زندہ رکھتی ہے۔ تاہم، نکھل اڈوانی نے ملاقاتوں اور بات چیت کے ذریعے کہانی کو پیش کیا ہے، جس سے ایک دستاویزی ڈرامہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ نیز، مکالمے اور فسادات کے سلسلے دہرائے جانے والے محسوس ہوتے ہیں۔ برطانوی حکومت اور ماؤنٹ بیٹن کو وائٹ واش کے طور پر دکھاتے ہوئےجناح کو ویلن کے طور پر دکھانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ ویسے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اصل کتاب ماؤنٹ بیٹن کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بیک گراؤنڈ اسکور بھی بہت بلند ہے۔
اداکاری
اداکاری کی بات کریں تو سب سے پہلے کاسٹنگ تعریف کی مستحق ہے۔ جوبلی فیم سدھانت گپتا بطور جواہر لال نہرو پنڈت نہرو کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہے، جو روانی سے انگریزی بولتے تھے اور کلف دارکرتہ پہننے کے ساتھ اپنے اصولوں پر قائم رہتےتھے۔ اپنے لہجے، ڈائیلاگ ڈیلیوری اور باڈی لینگویج سے وہ اس چیلنجنگ کردار کو اپنانے میں کامیاب رہےہیں۔ بعض اوقات عمر کا فرق اور خراب میک اپ ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسی طرح عارف زکریا نے جناح کےکردار میں جان ڈالی ہے۔ چراغ ووہرا نےگاندھی کے کردار میں بھی شاندار اداکاری کی ہے۔ جبکہ راجندر چاولہ بطور سردار پٹیل محفل لوٹ لیتے ہیں۔ پارٹی اور ملک کے مفاد میں بغیر سوال کے اپنا عہدہ چھوڑنے والے کارکن سے وہ عملی سوچ کے ساتھ ایک سچے وژنری کے طور پر ابھرتے ہیں۔ مزید برآں، ماؤنٹ بیٹن کے طور پر لیوک میک گیبنی بھی متاثر کرتے ہیں۔ ایڈیٹنگ، سینماٹوگرافی، اصل فوٹیج کا استعمال سیریز کو مضبوط بناتے ہیں۔
نتیجہ
اگر آپ ملک کی تاریخ اور سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ سیریز دیکھ سکتے ہیں۔