سجیت سرکارکی ہدایت کاری والی اس فلم میںزندگی کیلئے جدوجہد کرنے والےشخص کے طور پر ابھیشیک بچن نےخودکو منوانے کی کوشش کی ہے۔
EPAPER
Updated: November 23, 2024, 1:11 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai
سجیت سرکارکی ہدایت کاری والی اس فلم میںزندگی کیلئے جدوجہد کرنے والےشخص کے طور پر ابھیشیک بچن نےخودکو منوانے کی کوشش کی ہے۔
آئی وانٹ ٹو ٹاک (I Want to Talk)
اسٹار کاسٹ:ابھیشیک بچن، آہلیا بامرو، جانی لیور، جینت کرپلانی، ٹام میک لارین، جینیٹ کارٹر، کرسٹین گوڈارڈ۔
ڈائریکٹر :سجیت سرکاری
رائٹر :رتیش شاہ
پروڈیوسر:شیل کمار، رونی لہری، کمار ٹھاکر، کرن وادھوا
موسیقی:تابا چاکے
سنیماٹوگرافی:اویک مکھوپادھیائے
ایڈیٹنگ:شیکھر پرجاپتی
پروڈکشن ڈیزائن:مانسی دھرو مہتا
میک اپ:شبانہ لطیف
آرٹ ڈائریکٹر:مانسی دھرو مہتا
سائونڈ:اشوتوش جینا، دیپنکر چاکی، سچن جوز، سوروساہو
ریٹنگ: ***
کیا ہواگرہمیں ایسے مقام سےزندگی کے نئے پہلو کا آغازکرنا ہو جہاں زندگی ختم ہونے والی ہے؟ اگر ڈاکٹر آپ کو بتائے کہ آپ کی زندگی میں صرف ۱۰۰؍دن باقی ہیں تو یا تو آپ زندگی کے اس آخری مرحلےمیں اپنی ادھوری خواہشات کو پورا کرنا شروع کر دیں گے یا ہار مان کر بیٹھ رہیں گے؟ لیکن ہدایت کار شوجیت سرکار کا یہ ہیرو دونوں میں سےکوئی متبادل منتخب نہیں کرتا۔ وہ موت کو ٹالتا ہے اور ناظرین کو ایک ناقابل یقین سفر پرلے جاتا ہے جو آپ کو کئی جگہوں پر بے حس کر دیتا ہے، لیکن آخر میں آپ کو امید اور اچھا محسوس کرتا ہے۔
فلم کی کہانی
کہانی ارجن سین (ابھیشیک بچن) کی ہے، جو سجیت سرکار کے دوست بھی ہیں۔ ارجن کیلیفورنیا کی مارکیٹنگ کی دنیا میں دھوم مچا رہا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب ہونے والاارجن شادی کے معاملے میں اتناخوش قسمت ثابت نہیں ہوا۔ وہ اپنی بیوی سے الگ ہو گیاہے اور بیٹی ریحا منگل، جمعرات اور ہر دوسرے ویک اینڈ پر اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے۔ ایک دن، ایک دباؤ والی دفتری میٹنگ کے دوران، ارجن کو کھانسی آتی ہے اور منہ سے خون آنے لگتا ہے۔ اسپتال لےجانے کے بعد، اسے لیرینجیل(گلے کا)کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کے زندہ رہنے کے لیے صرف ۱۰۰؍ دن باقی ہیں۔ اب تک ارجن کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ ان کی بیٹی (آہلیا بامرو) بھی ان کے قریب نہیں ہے۔ وہ اپنی نوکری کھو دیتا ہے۔ بولنے اور تیزعقل کاماہر ارجن شاید پھر کبھی بولنے کے قابل نہ ہو، لیکن اپنی زندگی کے اس سب سے تکلیف دہ وقت میں، ارجن اپنی زندگی جیتنے کی جنگ میں اترتاہے۔ اگرچہ کبھی کبھار وہ اپنی جان لینے کا بھی سوچتا ہے، لیکن جدوجہدپسند ارجن، ایک یا دو نہیں بلکہ ۲۰؍سرجریوں سے گزرتاہے، اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔ اس سلسلےمیں اسے بہت سے مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ بے لطف تنہائی، نوکری سے ہاتھ دھونا، اسپتالوں کے بھاری بل، گھر چلانا، سر پر لٹکتی موت کی تلوار سے مسلسل لڑنا۔
ہدایت کاری
ہدایت کار سجیت سرکار کاکہانی سنانے کا اپنا طریقہ ہے۔ وہ زندگی کی تبدیلی کے خوفناک خیالات کا باعث بنتے ہیں اور آپ کے اندرایک خلا کو بھر دیتےہیں۔ جب آپ کا درد گہرا ہونے لگتا ہے تو ہیروکی جینے کی خواہش مرہم کا کام کرتی ہے۔ وہ ارجن سین کی ۲۰؍ سرجریوں کو میلو ڈرامے کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتے، بلکہ زندگی کامعمول بنادیتےہیں۔ ارجن کے درد میں ڈوبنے کے بجائے سامعین اس میں تیرنےلگتے ہیں۔ ’اکتوبر‘ اور’پیکو‘جیسی بہترین فلمیں بنانے والےسجیت یہاں بھی انسانی رشتوں کی گرہیں کھولتے نظر آتے ہیں۔ باپ بیٹی کے درمیان کےمناظریادگار بن گئے ہیں۔
فلم کا پہلا ہاف آپ کو تھوڑا سا سست لگ سکتا ہے، لیکن دوسرے حصے میں فلم تیزی سے آگے بڑھتی ہے۔ سجیت نے اسپتال کے مناظر میں مونٹاج کا اچھا استعمال کیا ہے۔ وہ ڈاکٹر (جینت کرپلانی) کے ساتھ مریض ابھیشیک کے تعلقات کے ذریعے بہت ہلکے پھلکے لمحات پیش کرنے میں کامیاب ہیں۔
ادا کاری
ایک اداکارکےطور پر یہ کردار ابھیشیک بچن کیلئےبہت چیلنجنگ رہاہوگا، کیوں کہ انھیں ایک ایسے شخص کی زندگی گزارنی ہے جو کسی بھی لمحےموت کی گود میں جا سکتاہے، لیکن انھیں موت کا ماتم نہیں کرنا، بلکہ زندگی کا جشن مناناہے۔ ابھیشیک نے اس کردار میں کمال کیا ہے۔ انہوں نےکردار کی ہر تہہ کو اپنے اندرجذب کرلیا ہے، خواہ وہ ایک مریض کےطور پر اس کا لڑنے کا جذبہ ہو یا باپ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کر رہا ہو۔ ان کی جسمانی تبدیلی کردار کو مضبوط بناتی ہے۔
ارجن سین کی بیٹی کے کردار میں چائلڈ آرٹسٹ ہوں یا جوان بیٹی کے کردار میں آہلیابامرو، دونوں نے کمال کا کام کیا ہے۔ جانی لیور اپنے چھوٹے کردار میں راحت کے لمحات فراہم کرتے ہیں۔
نتیجہ
سجیت سرکار اور ابھیشیک بچن کی فنکارانہ صلاحیتوں اور زندگی کیلئے جدوجہد کی کہانی کے پرستار اس فلم کو دیکھ سکتے ہیں۔