اسپیشل ۲۶؍جیسی فلم کےہدایت کار نیرج پانڈے کے ذریعہ بنائی گئی اس فلم میں جمی شیرگل اور تمنا بھاٹیہ کے ساتھ اویناش تیواری اہم رول میں ہیں۔
EPAPER
Updated: November 30, 2024, 11:29 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
اسپیشل ۲۶؍جیسی فلم کےہدایت کار نیرج پانڈے کے ذریعہ بنائی گئی اس فلم میں جمی شیرگل اور تمنا بھاٹیہ کے ساتھ اویناش تیواری اہم رول میں ہیں۔
سکندر کا مقدر (Sikandar Ka Muqaddar)
اسٹار کاسٹ: جمی شیرگل، اویناش تیواری، انوپم سنہا، تمنا بھاٹیہ، راجیو مہتا، دیویہ دتا، اشروت جین، امرتا کماری
ڈائریکٹر :نیرج پانڈے
رائٹر :نیرج پانڈے، وپل راول
پروڈیوسر:شیتل بھاٹیہ، محمد صابر شیخ، سندیپ شانڈیلیا
سنیماٹوگرافی:اروند سنگھ
ایڈیٹنگ:ریشو برجیش رائے
پروڈکشن منیجر:سدھیش سوانے
میک اپ:جوائس لوئیز، کملیش شندے
آرٹ ڈائریکٹر:جوئی کیریت منیار، سرگئی زریانوف
ریٹنگ: ***
فلموں کی دنیا میں ڈکیتی پر مبنی چور اور پولیس کی کہانی فلم بینوں کے پسندیدہ موضوعوں میں سے ایک رہاہے۔ اس موضوع پر غیر ملکی فلمیں اور ویب سیریز جیسے’دی اٹالین جاب‘، ’اوشین سیریز‘، ’نائو یو سی می‘ سے لے کرعالمی سطح پرشہرت حاصل کرنے والی سیریز’منی ہائسٹ‘ تک بنائی گئی ہیں۔ ملک میں ’جیول تھیف‘، ’آنکھیں ‘(۲۰۰۲ء) اور ’دھوم‘ فرنچائز جیسی یادگار فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اب ہدایت کار نیرج پانڈے اسی موضوع پر اپنی نئی فلم’سکندر کا مقدر‘ لے کر آئے ہیں۔ نیرج خود اس سے پہلے پولیس کو دھوکہ دے کر پیسے چرانے والے لوگوں کی ٹیم پر فلم’اسپیشل ۲۶‘ بنا چکے ہیں۔
فلم کی کہانی
یہاں بھی کہانی ہیروں کی چوری کی ہے۔ پولیس کو اطلاع ملتی ہے کہ قیمتی ہیروں کی نمائش کے دوران ڈکیتی ہونے والی ہے جس سے افراتفری پھیل جاتی ہے۔ اس دوران ۵۰؍سے ۶۰؍کروڑ روپے کے ۵؍ قیمتی ہیرے غائب ہو گئے۔ کیس کی ذمہ داری آئی اوہرویندر سنگھ (جمی شیرگل) کو دی جاتی ہے، جن کا ٹریک ریکارڈ ۱۰۰؍ فیصد ہے۔ یہاں بھی، اپنی بیسک انسٹنکٹ کی بنیاد پر، وہ چند ہی منٹوں میں نمائش میں موجود۳؍لوگوں ’ منگیش دیسائی (راجیو مہتا)، کامنی سنگھ (تمنا بھاٹیہ) اور انجینئر سکندر شرما (اویناش تیواری) کو ملزم قرار دیتا ہے۔ ہرویندر کو یقین ہے کہ ان میں سے ہی کسی نے چوری کی ہے، لیکن وہ تحقیقات میں اسے ثابت کرنے سےقاصر ہے۔ کیس ختم ہونے کے بعدبھی وہ ۱۵؍سال سےسکندر کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ اسے بے روزگار کردیتا ہے، اس کے سر سے چھت چھین لیتا ہے، اسےدر در ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ہرویندر خود بھی اس دھن میں اپنی وردی اور بیوی کو کھو دیتا ہے اس کے باوجود وہ چوری شدہ ہیروں کو تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ آخر کار ہرویندر قبول کرتا ہے کہ اس کی جبلت غلط تھی۔ لیکن کیا ہرویندر واقعی غلط تھا؟ آخر ہیرے کہاں گئے؟ اس چوری کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ یہ راز فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔
ہدایت کاری
نیرج پانڈے اوروپل کے راول کی تحریر کردہ، یہ کہانی ایک دلچسپ انداز میں شروع ہوتی ہے اور تیز رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ لیکن جلدہی ۱۵؍سال کا سفر طے کرنے میں آگے پیچھے جانے لگتی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سنسنی کمزور ہو جاتی ہے۔ کہانی میں بہت سےموڑ آتےہیں، جو آپ کو مصروف رکھتے ہیں۔ لیکن جس قسم کی کہانی سنانے کے ساتھ یہ انکشافات ہوئے ہیں وہ چونکانے والی نہیں ہے۔ ان کا اثر مدھم رہتا ہے۔
اسکرین پلے میں خامیاں ہیں جو کہ کئی جگہوں پر نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جمی شیرگل کے کردار کی بے چینی اسے کیسے بدلتی ہے؟ اس سےاس کی ملازمت اور شادی شدہ زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ یہ باتیں آخر تک معلوم نہیں ہوتیں۔ بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔ ایسے میں ڈھائی گھنٹے کی طوالت بھی عجیب لگتی ہے۔
ادا کاری
ہاں، اداکاری کے معاملے میں اور ایسے پولیس افسرکاکردارادا کرنے میں جمی شیرگل کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا وہ اس کردار میں بالکل حقیقی پولیس افسر ہی نظر آتے ہیں۔ اویناش تیواری نے بھی ان کے ہم پلہ اداکاری کامظاہرہ کیا ہے، وہ جمی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ تمنا بھاٹیہ بھی اپنے کردار کے ساتھ انصاف کرتی ہیں۔ تاہم ان کے کردار میں گہرائی کا فقدان ہے۔ دوسری طرف دیویہ دتہ، زویا افروز، ردھیما پنڈت کے کردار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تکنیکی پہلو کی بات کریں تو اروند سنگھ کا کیمرہ اور گوہل ایچ آر کے ساؤنڈ ایفیکٹس سسپنس کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
نتیجہ
اگر آپ اس طرح چوری چکاری یا پولیس کی تفتیش پر مبنی کہانیاں دیکھنے کے شوقین ہیں تو اس سیریز کو ایک مرتبہ ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے جمی شیرگل کی شاندار اداکاری کیلئے بھی اس فلم کو ایک مرتبہ دیکھاجاسکتا ہے۔