انوپم کھیر نے اپنی حقیقی عمر کے شخص کے کردار میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے،فلم کے کردار کی جدوجہد اور جذبہ فلم کی سب سے اہم بات ہے۔
EPAPER
Updated: November 09, 2024, 11:32 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
انوپم کھیر نے اپنی حقیقی عمر کے شخص کے کردار میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے،فلم کے کردار کی جدوجہد اور جذبہ فلم کی سب سے اہم بات ہے۔
میں ۶۹؍سال کا ہوں، تو کیا میں خواب دیکھنا چھوڑ دوں؟ میری عمر ۶۹؍ہے، تو کیا مجھے صبح اخبار پڑھنا چاہیے؟ صرف سیر کے لیے جانا چاہئے؟کیا میں صرف دوائیں کھاؤں،سوجاؤں اور ایک دن مر جاؤں؟ فلم کے یہ مکالمے ہمیں عمر رسیدہ افراد کی زندگی کے اس موڑ کے تعلق سےسوچنےپر مجبور کرتے ہیں جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی زندگی مکمل طور پر رک جاتی ہے اور انہیں حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ہدایت کار اکشے اوبرائے اپنی فلم ’وجے ۶۹‘کےذریعے معمر افرادکے خوابوں، امنگوں،امیدوں اور خواہشات کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
فلم کی کہانی
فلم کی کہانی ایک بہت ہی دلچسپ نوٹ سے شروع ہوتی ہے۔ جب وجے میتھیو (انوپم کھیر)جوکہ ۶۹؍سال کی عمر کو عبور کرچکا ہے، جب ایک رات گھر نہیں لوٹتاتو اس کے گھر والے، پڑوسی اور دوست یہ سمجھتےہیں کہ وہ اس دنیا سےوداع لےچکےہیں۔اس کیلئےتابوت منگوایا جاتا ہے،دوست اس کیلئے الوداعی تقریر تیار کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس کےاچانک نمودار ہونےپربیٹی، داماد اور پڑوسی غم کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ وہ سب کو بتاتا ہے کہ اس کی موت نہیں ہوئی لیکن اسی لمحے اسے احساس ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو لوگ اسے کیسے یاد کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے: ماسٹر غلام حیدر، جنہوں نے لتامنگیشکراورنور جہاں کو فلموں میں پیش کیا
کبھی تیراکی کا شوق رکھنے والے وجے قومی سطح پر تیراکی میں کانسےکا تمغہ بھی جیت چکے ہیں۔ لیکن جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی کینسر سے لڑ رہی ہے، تو اس نے اپنی بیوی کی دیکھ بھال اور بیٹی کی پرورش کیلئے اپنے شوق کاگلا گھونٹ دیا اور ایک چھوٹے سے کلب میں سوئمنگ کوچ بن گیا۔لیکن اپنی عمر کے اس مرحلے پر، وہ اپنے شوق اوراپنی فوت شدہ بیوی کی ادھوری خواہش کو پورا کرنے کے لیے ٹرائیتھلون میں حصہ لینے پر اصرار کرتا ہے۔
ٹرائیتھلون کا حصہ بننےکیلئے وجے کو ڈیڑھ کلومیٹر تیراکی، ۴۰؍ کلومیٹر سائیکل اور ۱۰؍کلومیٹر دوڑنا پڑے گا۔ وجے کے گھر والے اور دوست اس کی ضد کا مذاق اڑاتےہیں۔وہ اس کی صحت کے مسائل کو سامنے لا کر اسے ڈراتے ہیں، اور ٹرائیتھلون کے لیے۴؍ماہ کی سخت تربیت کے بعد بھی، اس کی درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی خواہش کیسے پوری کرے گا؟ یہ فلم کی کہانی ہے۔
ہدایت کاری
ہدایت کاراکشے رائےنےفلم کے ذریعے ایک بہت اہم نکتہ اٹھایاہے کہ معمر افرادکو کیوں بے کارسمجھا جائے۔ فلم کی کہانی بھی بہت جذباتی ہے، لیکن جس طرح کا ماحول اور کردار انہوںنے کہانی کو بُننے کے لیے تخلیق کیے، اگر انھیں کسی اور ماحول میں کچھ زیادہ گہرائی کے ساتھ پیش کیا جاتا تو مزہ بڑھ جاتا۔ اسکرین پلے بھی بہت سی جگہوں پر ڈھیلی پڑجاتی ہے، لیکن حوصلہ افزائی کا جذبہ طاقت دیتا ہے۔ میڈیا کو بےہودہ انداز میں پیش کئے جانے پرغصہ آتا ہے۔ کہانی کے بعض حصوں میں تکرار بھی نظر آتی ہے۔
موسیقی کی بات کریں تو۱۹۶۵ء کی فلم ’وقت کا گانا ’آگے بھی جانے نہ تو‘کوخوبصورتی سے کمپوز کیا گیا ہے۔ یہ گانا کلائمکس میں جذبات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
اداکاری
انوپم کھیر ہمیشہ اپنی اداکاری سے سب کو متاثر کرتےہیں۔ اپنی پچھلی فلم ’سگنیچر‘ میں بھی انہوں نےاپنی دلچسپ اداکاری سے ناظرین کے دل جیت لیے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے وجے میتھیو کےکردار میں پوری طرح ڈھل گئے ہیں۔اپنے کردار کے ذریعے وہ ہمیں امید اور فتح کے سفر پر لے جاتے ہیں،جہاں تک پہنچ کر سامعین خوشی سےبھر جاتے ہیں۔ لیکن ہاں اگر اس کا کردار گالی گلوچ سے گریز کرتا تو زیادہ مزہ آتا۔چنکی پانڈے اور گڈی ماروتی کے کردار کو مزید بہتر کیا جا سکتا تھا۔چنکی پانڈے کا پارسی لہجہ پریشان کن ہے۔برجیش ہرجی ہمیشہ کی طرح تفریح کرتےہیں۔ مہر آہوجا، اندریجا سنہا، سلگنا پنگراہی، سانند ورما وغیرہ نے اچھا کام کیا ہے۔
نتیجہ
معمر افراد کے مسائل میں دلچسپی رکھنے والے اور ان کی متاثر کرنے والی کہانیوں کے شوقین یہ فلم دیکھ سکتے ہیں۔