یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مودی کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں ہے۔ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ تو کیا مودی برانڈ کو گہن لگ چکا ہے؟
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 9:34 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مودی کی مقبولیت پہلے جیسی نہیں ہے۔ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ تو کیا مودی برانڈ کو گہن لگ چکا ہے؟
باب وُڈرو امریکی صحافی ہیں جن کی شہرت واٹر گیٹ اسکینڈل کی رپورٹنگ کے سبب ہے۔ اُن کی ایک وجہ ِ شہرت اور بھی ہے۔ وہ بل کلنٹن کے دور سے لے کر اب تک کے تمام صدور کی تفصیل یکجا کرتے رہے ہیں۔ تفصیل یکجا کرنے سے مراد وہ اُن کے دورِ اقتدار کے بارے میں کتابیں لکھ رہے ہیں کہ اُن کا دورِ اقتدار کیسا تھا، اُس دور میں کون کون سے واقعات رونما ہوئے اور بحیثیت مجموعی وہ دور کیسا رہا۔ ہمارے دوست راج دیپ سردیسائی نے یہی کام لوک سبھا انتخابات کے بارے میں کیا۔ اُنہوں نے سابقہ تین لوک سبھا انتخابات کی تفصیل یکجا کی۔ ۲۰۱۴ء، اس کے بعد ۲۰۱۹ء اور اب ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن کی تفصیل یکجا کرنے کے بعد انہوں نے اُسے کتابی شکل میں شائع کیا۔ آخر الذکر کتاب کا نام ہے: ’’۲۰۲۴ء: ہندوستان کو حیرت میں ڈالنے والا الیکشن‘‘۔ بلاشبہ اس میں جو مواد شامل کیا گیا ہے وہ انتخابی مہم سے متعلق ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ سارے واقعات ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں جو اُس وقت معرض وجود میں آتے رہے۔ اس کتاب میں ایک باب کووڈ کے دور کا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کتنے پھوہڑ طریقے سے اِس وباء سے نمٹنے کی کوشش کی گئی۔ ایک باب کسانوں کے احتجاج سے متعلق ہےجس میں بتایا گیا ہے کہ مودی کا زوال کس طرح شروع ہوا۔ اس (زوال) کی ابتداء شاہین باغ کے مظاہرہ سے ہوئی تھی۔ یہ باب شاہین باغ سے شروع ہوا جو ۲۰۱۹ء کے اواخر کا دور ہے اور تین متنازع زرعی بلوں کی واپسی پر ختم ہوا۔ آخری صفحات پر سردیسائی نے اُن سوالوں کے جوابات دیئے ہیں جنہیں وہ ’’اکثر پوچھے جانے والے سوالات‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس مضمون میں میری کوشش ہوگی کہ ان میں سے تین سوالات سے بحث کروں۔
پہلا سوال: کیا مودی کا دور اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے؟
اس کے جواب میں راج دیپ سردیسائی کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے یعنی مودی کا دور ختم نہیں ہورہا ہے۔ اُنہو ںنے یہ کہنے کی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ سب سے اہم وجہ جو اُنہوں نے بیان کی وہ ہے: مودی کا غیر معمولی عزم مصمم اور اقتدار میں رہنے کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کا ’’حوصلہ‘‘۔ سردیسائی کا کہنا ہے کہ ان دو خصوصیات کے سبب مودی اپنے اقتدار کی تیسری مدت کی تکمیل کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے اہم سرکاری عہدوں پر باہر سے کی جانے والی تقرریوں (لیٹرل اِنٹری) کا حوالہ دیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی تیسری میعاد مکمل کرنے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں خواہ دو قدم پیچھے ہٹنا پڑے۔
جہاں تک مودی کے حلیفوں کا تعلق ہے، وہ حلیف جو اُن کی حکومت کو سپورٹ کررہے ہیں مثلاً چندر بابو نائیڈو، اُن کی دلچسپی اپنی ریاست سے ہے اور جب تک اُن کے مطالبات پورے ہوتے رہیں گے، اُن کے دل میں مودی حکومت کے خلاف کچھ کرنے کا خیال نہیں آئے گا۔مودی کیلئے یہ راحت کی بات ہے۔ تو پھر کیا آر ایس ایس اور اس کے مفادات مودی کیلئے راستے کی دیوار بن سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سردیسائی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس مودی کو جانتا ہے۔ اُسے علم ہے کہ بی جے پی میں کوئی لیڈر مودی جتنا مضبوط نہیں ہے۔ سنگھ کی اپنی جانکاری کے مطابق ملک میں چار میں سے کم از کم ایک ووٹر یہ کہتا ہے کہ مَیں پارٹی کو مودی کی وجہ سے سپورٹ کرتا ہوں۔ ہرچند کہ اس مقبولیت میں اب کمی آگئی ہے ورنہ پہلے تین میں سے ایک شخص ایسا کہتا تھا۔
چونکہ پارٹی میں بھی مودی کا مدمقابل اور اُن کے اِتنا ’مقبول‘ کوئی نہیں ہے اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ مودی اپنی ۷۵؍ ویں سالگرہ کے بعد بھی عہدہ پر قائم رہیں۔ یاد رہنا چاہئے کہ اب اُن کی ۷۵؍ ویں سالگرہ میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
دوسرا سوال: سردیسائی نے اپنی کتاب میں جن سوالوں کے جواب دیئے ہیں اُن میں سے ایک ہے: کیا راہل گاندھی ایک دم خم والے سیاستداں کے طور پر اُبھر چکے ہیں؟ سردیسائی کے خیال میں اس کا جواب اثبات میں ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ کیا وہ دم خم والے سیاستداں کے طور پر اُبھر چکے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے کافی بدل چکے ہیں۔ اس سلسلے میں سردیسائی نے بھار ت جوڑو یاترا، انتخابی نتائج اور ان کی وجہ سے پارلیمنٹ میں بدلی ہوئی ترتیب کا حوالہ دیا ہے۔اگر اُن کے تعلق سے بھرپور تاثر قائم کرنے میں کچھ تردد یا تامل ہے تو وہ ریاستی انتخابات کے نتائج کے ذریعہ دور ہوجائیگا۔ یہ نتائج راہل گاندھی کی قائدانہ صلاحیت کی توثیق کرینگے۔
تیسرا سوال: راج دیپ سردیسائی نے جس تیسرے سوال کا جواب دیا ہے وہ ہے: کیا مودی کا اقتدار ختم ہونے تک جمہوریت باقی رہے گی؟ اس کا جواب بڑے دلچسپ انداز میں دیا گیا ہے جس کیلئے مصنف نے دو باتوں کو خاص طور پر سامنے رکھا ہے۔ پہلی بات معاشی ترقی کی معنویت ہے اور دوسری مودی کے عہد پر آمریت کا سایہ ہے۔مصنف کا کہنا ہے کہ جب تک ان دو باتوں کو نہیں سمجھا جائیگا مذکورہ (تیسرے) سوال کا ہاں میں جواب دینا ممکن نہیں ہوگا۔
میرے خیال میں راج دیپ کئی سوالوں کا بہ انداز دگر جواب دے سکتے تھے مثلاً وہ کہہ سکتے تھے کہ مودی نےوعدے وفا نہیں کئے، اُن کے دور کے ابتدائی دس سال کا ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مودی مثبت چھاپ چھوڑنے میں ناکام ہیں، ملک کے شہریوں کی زندگی ۲۰۱۴ء سے پہلے جیسی ہی ہے کوئی فرق نہیں آیا ہے، آج مودی کی طاقت کم (۲۴۰؍ سیٹیں) ہوگئی ہے اور وہ اپنی سی کرنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں، وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مختلف وزیر اعظم ہیں، تاریخ میں اُنہیں ایک ایسے حکمراں کے طور پر یاد کیا جائیگا جو کابینہ کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کیا کرتا ہے (مثلاً نوٹ بندی اور لاک ڈاؤن) اور آخری بات یہ کہ اُنہیں اپنے حلیفوں کو اعتماد میں لینے کیلئے کافی توانائی خرچ کرنی پڑی اور آئندہ بھی خرچ کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ خود ان کی پارٹی یعنی بی جے پی کی صفوں میں اُن کے خلاف باغیانہ رجحان نہیں ہے۔ عوام اب اُنہیں مسیحا نہیں سمجھتے۔ اُن کی حیثیت ایک عام سیاستداں جیسی ہے۔ n