• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیا یہ شکر نہیں کرتے؟

Updated: September 13, 2024, 5:27 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔

Appreciate. Photo: INN
شکر۔ تصویر : آئی این این

آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہِ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرشِ خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اور سرسبز باغوں کا اُگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کارفرما ہے۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجئے، جن مادّوں سے یہ مرکب ہے اُن کے اندر بجائے خود کسی نشوونما کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سب مادّے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمین کے اندر سے نباتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ چند بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیئے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آسکتی تھی:
 اولاً، زمین کے مخصوص خطو ّں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادّوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کیلئے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا جذب کر سکیں۔
 ثانیاً، زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادّے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کر سکیں۔
 ثالثا ً، اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفاتِ سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشوونما کے لئے درکار ہیں۔
 رابعاً، سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں۔
 یہ چار بڑے  اسباب (جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں) جب پیدا کر دیئے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا۔ ان سازگار حالات کی فراہمی  کے بعد نباتات پیدا کئے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین،پانی، ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے۔ مزیدبرآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر مزید کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد اور حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ اُن بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا، دوا، لباس اور اَن گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جانے والا تھا۔
 اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کریگا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین، پانی، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خدائوں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا۔

ہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوعِ انسانی، سب کا خالق و رب ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا۔ توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سروسامان ان کی زندگی کیلئے فراہم کیا ہے، اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لئے پیدا نہیں کیا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK