• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پہاڑ: اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی

Updated: September 13, 2024, 2:42 PM IST | Principal Jawaria Qazi | Mumbai

جبل رحمت نامی پہاڑ پر حضرت آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی، حضرت نوح ؑکی کشتی کا سفر جودی نامی پہاڑ پر لنگرانداز ہوکر ختم ہوا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشہور خطاب جسے ’’پہاڑی کا وعظ‘‘ کہا جاتا ہے، قرآن میں کوہ زیتون کے نام سے یاد کیا گیا ہے، حضرت موسیٰؑ کو کوہِ طور پر توراۃ عطا کی گئی،نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ کی حضرت جبریلؑ سے پہلی ملاقات جبل نور پر ہوئی جبکہ کوہ اُحد آپؐ سے محبت کرتا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 یہ کائنات میں حرکت اور سکون کے توازن کے حقیقی رازکچھ ا س طرح ہیں کہ دو بڑے اجسام کے درمیان کشش کی طاقت ان کے درمیانی فاصلے کو توازن کی بنیاد پر قائم رکھتی ہے، جس کے باعث چھوٹا جسم بڑے جسم کے گرد گردش پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی توازن اس زمین کے نظام حیات کا بھی ایک الٰہی راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کے ساتھ ہی پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوطی سے گاڑ کر یہاں انسانوں کے مسکن کا توازن قائم کر دیا۔ ’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ نہیں دیا؟‘‘ یہ پہاڑ، جو زمین کے توازن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں، ایک بڑی حکمت اور اللہ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ 
زمین میں پہاڑوں کی تخلیق کی حکمت اور ان کے فوائد پر قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوطی سے گاڑا تاکہ زمین اپنے محور سے نہ ہٹے اور انسان اس پر محفوظ رہ سکے۔ مزید برآں، اللہ تعالیٰ نے زمین کو زندہ اور مردہ دونوں کیلئے ایک مستحکم مسکن بنایا، اس میں بلند و بالا پہاڑ قائم کئے، اور اس کے ذریعے انسانوں کو صاف اور میٹھا پانی فراہم کیا۔ ان آیات میں پہاڑوں کی اہمیت کو زمین کی بقا اور انسانوں کی زندگی کے لئے ضروری عنصر کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اور دونوں کا اکٹھا ذکر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی کے طور پر کیا گیا ہے۔ 
 پہاڑوں کی دینی اور تاریخی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ، پہاڑوں کا ذکر مختلف انبیاء علیہ السلام کے واقعات کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ جس پہاڑ پر قبول ہوئی، اسے ’’جبل رحمت‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج بھی حاجی حضرات عرفات کے میدان میں اس پہاڑ پر جا کر دعائیں مانگتے ہیں، جسے قبولیت دُعا کا مقام سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح، طوفان نوح کے دوران اٹھنے والی موجوں کو قرآن نے پہاڑوں سے تشبیہ دی ہے۔ جب حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کو کشتی پر سوار ہونے کی دعوت دی تو اس نے پہاڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پہاڑ نہ صرف قدرتی توازن کا ایک حصہ ہیں بلکہ دینی و تاریخی لحاظ سے بھی ان کی بڑی اہمیت ہے۔ انبیاء کی داستانوں میں پہاڑوں کا ذکر اللہ کی قدرت اور حکمت کی نشانی کے طور پر بار بار کیا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:یونیفارم سول کوڈ خود عورتوں کیلئے تناؤ کا باعث بن سکتا ہے (قسط۳)

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا سفر جودی نامی پہاڑ پر لنگرانداز ہوکر ختم ہوا، جو کہ طوفان کے اختتام کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مردوں کو زندہ کرنے کی بابت سوال کیا۔ اس پر انہیں چار پرندوں کو سدھانے، انہیں ذبح کرنے اور پھر ان کے ٹکڑے چار پہاڑی چوٹیوں پر رکھنے کا حکم دیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کو آواز دی تو وہ دوبارہ زندہ ہوکر ان کے پاس آ گئے، جو اللہ کی قدرت کا ایک واضح معجزہ تھا۔ اسی طرح، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پہاڑی وادی میں ان کی والدہ کے ساتھ چھوڑا، اور ان کی والدہ نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی۔ یہ وادی آج مکہ مکرمہ کے نام سے جانی جاتی ہے، جو توحید کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جنہوں نے نبوت اور کتاب کے حصول کیلئے کوہ طور کا قصد کیا۔ کوہ طور وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تورات عطا کی گئی تھی۔ یہ تمام واقعات پہاڑوں کی تاریخی، دینی اور روحانی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اور انبیاء کی زندگیوں میں ان کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔ 
 قرآن میں انبیاء کرام علیہم السلام اور پہاڑوں کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کا مشہور خطاب جسے ’’پہاڑی کا وعظ‘‘ کہا جاتا ہے، قرآن میں کوہ زیتون کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی حضرت جبریل علیہ السلام سے پہلی ملاقات جبل نور پر ہوئی، جہاں قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا۔ آپؐ کا پہلا خطاب کوہ صفا پر ہوا، اور ہجرت مدینہ کے دوران کوہ ثور نے آپؐ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پناہ دی۔ مدینہ منورہ میں کوہ احد بھی آپؐ سے محبت کرتا تھا، اور آپؐ بھی اسے پسند فرماتے تھے۔ تاریخی طور پر بھی پہاڑ انسانی تہذیبوں کے آغاز کا مرکز رہے ہیں۔ چونکہ پہاڑ بلندیوں پر ہوتے ہیں، اس لئے انسانوں نے ابتدا میں پہاڑوں سے میدانوں کی طرف ہجرت کی اور انسانی تمدن نے انہی پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں کے کناروں پر ترقی کی۔ یہ پہاڑوں کی مذہبی، تاریخی اور تہذیبی اہمیت کو واضح کرتا ہے، اور انبیاء کی زندگیوں میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ 
 انسانی تہذیب و تمدن کی ابتدا پہاڑوں سے ہوئی اور کس طرح انسانوں نے پہاڑوں سے میدانوں کی طرف ہجرت کی۔ قبل از تاریخ کے انسان کو میدانوں کی واقفیت نہیں تھی، لیکن شکار کرتے ہوئے وہ میدانوں تک پہنچا، جہاں اس نے کھیتی باڑی کا آغاز کیا۔ مزید یہ کہ تمام بڑے مذاہب کا تعلق کسی نہ کسی پہاڑ سے جڑا ہوا ہے۔ کوہ ہندوکش کو ہندو دھرم کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے، اور ہمالیہ کی چوٹیوں کو ہندو مت میں اعلیٰ و مقدس مقام حاصل ہے۔ کوہ صہیون یہودیت سے منسوب ہے، اور ناصرہ نامی پہاڑی وادی کو نصرانیت کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح، نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ فاران سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ واقعات پہاڑوں کی مذہبی، تاریخی اور تہذیبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے مختلف مذاہب اور تہذیبیں پہاڑوں سے منسلک ہیں۔ 
 دنیا کی کئی تاریخ ساز قیادتیں اور حکمراں پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ برصغیر کی تاریخ بھی پہاڑی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے، جہاں شمالی پہاڑی سلسلوں سے آنے والے حکمرانوں نے میدانی علاقوں کے لوگوں پر حکومت کی۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ان حکمرانوں کے اندر پہاڑوں کی خصوصیات اور مزاج برقرار رہا، وہ حکمراں رہے۔ لیکن جب میدانی تمدن کا اثر ان پر غالب آیا، تو وہ اپنے تخت و تاج سے محروم ہو گئے اور کسی نئے پہاڑی رہنما نے ان کی جگہ لے لی۔ مزید یہ کہ پہاڑوں کے پڑوس میں رہنے والے لوگوں پر کوئی بیرونی طاقت غلامی مسلط نہیں کرسکی، جبکہ پہاڑوں کے باسیوں نے صدیوں تک میدانی علاقوں کے لوگوں پر حکومت کی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہاڑی علاقوں کے لوگ اپنے مضبوط مزاج اور فطری طاقت کی بنا پر طویل عرصے تک حکمراں رہے، اور ان کی قیادت کا اثر و رسوخ میدانی علاقوں پر قائم رہا۔ 
 اقبالؔ نے پہاڑی لوگوں کی تعریف میں کہا کہ وہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتے ہیں اور ان کی زندگی کی حقیقت کو پہاڑوں کی سختیوں سے بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔ اقبالؔ نے اپنی شاعری میں بھی پہاڑوں کی عظمت کو بیان کیا ہے، اور ان کی زندگی کی حقیقت کا پہاڑوں کی سختیوں سے موازنہ کیا ہے، جو کہ طاقت اور استقامت کی علامت ہیں۔ اس کے علاوہ، انسانی تہذیب، ادب اور سیاست میں بھی پہاڑوں کی اہمیت نمایاں ہے۔ بہت سی زبانوں میں پہاڑوں اور پہاڑی سلسلوں سے متعلق محاورے، استعارے، اور تشبیہات ملتی ہیں۔ داستانیں، نظمیں اور دیگر ادبی صنفیں پہاڑوں کی تشبیہات اور علامتوں سے مالا مال ہیں، جو ادب کی فصاحت و بلاغت اور تاریخی مرتبہ کو بڑھاتی ہیں۔ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ پہاڑ نہ صرف قدرتی اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، بلکہ انسانی ادب اور ثقافت میں بھی ان کا گہرا اثر ہے۔ 
 قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن پہاڑوں کو حرکت دی جائے گی، زمین ننگی ہو جائے گی اور ہر فرد کو جمع کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، قرآن کی آیات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے کہ پہاڑوں کا حال قیامت کے دن کیسے ہوگا، جیسے کہ پہاڑوں کا مکمل طور پر مٹا دیا جانا اور زمین کا بالکل ہموار ہو جانا۔ ساتھ ہی پہاڑوں کی اہمیت اور ان کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ پہاڑ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہیں اور حیاتیاتی ارتقاء کے لئے اہم ہیں۔ اس کے ساتھ، پہاڑوں پر بدکاری اور اخلاقی آلودگی کو ایک بڑی خرابی قرار دیا گیا ہے، جو ان قدرتی خوبصورتیوں کو اخلاقی طور پر کمزور بنا دیتا ہےساتھ ہی پہاڑوں کی قدرتی قوتوں اور انسانیت کے ساتھ ان کے تعلق پر توجہ دیتا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ پہاڑ انسانی سرگرمیوں کے باعث غصے میں ہیں اور ان کی قدرتی قوتیں انسانی بستیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ، سیکولرازم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، اور یہ کہا گیا ہے کہ انسانیت کی فلاح کیلئے انسانی زندگی کو اس کے خالق کی ہدایت کے مطابق ترتیب دینا ہوگا۔ ورنہ اس کا زبردست خمیازہ بھگتنا ہوگا جو پہاڑی تودوں کی حرکت سے بھاری تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK