آج ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا یوم ِ ولادت ہے جو اِدھر چند برسوں سے مخالفین کی نگاہ میں اتنا کھٹکتے ہیں کہ جب تک کچھ کہہ نہیں لیتے ان کا ہاضمہ درست نہیں ہوتا۔
EPAPER
Updated: November 14, 2024, 12:00 PM IST | Mumbai
آج ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا یوم ِ ولادت ہے جو اِدھر چند برسوں سے مخالفین کی نگاہ میں اتنا کھٹکتے ہیں کہ جب تک کچھ کہہ نہیں لیتے ان کا ہاضمہ درست نہیں ہوتا۔
آج ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا یوم ِ ولادت ہے جو اِدھر چند برسوں سے مخالفین کی نگاہ میں اتنا کھٹکتے ہیں کہ جب تک کچھ کہہ نہیں لیتے ان کا ہاضمہ درست نہیں ہوتا۔ مخالفین کی اسی نہرو دشمنی کا نتیجہ ہے کہ پنڈت جی برس کے بارہ مہینے اخبارات کی خبروں اور ٹی وی نیز یوٹیوب چینلوں کی بحثوں پر چھائے رہتے ہیں۔ کوئی اُن پر کیچڑ اُچھالتا ہے تو کوئی اُن کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ نہرو کی جتنی تنقیص موجودہ دور میں کی جارہی ہے، اتنی کبھی نہیں ہوئی کیونکہ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ نہرو کو دشمن نہیں سمجھا گیا تھا، اُن کی خدمات کی تحقیر نہیں کی گئی تھی۔ یہ سب اِس دور میں ہورہا ہے۔ اختلاف اپنی جگہ ہے مگر یہاں اختلاف نہیں کیا جاتا، بہتان طرازی ہوتی ہے، حقائق سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور ’’نئے حقائق‘‘ وضع کئے جاتے ہیں، مثال کے طور پر یہ کہنا کہ نہرو ریزرویشن مخالف تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو آئین میں ریزرویشن کی گنجائش کیوں رکھی جاتی؟ اُن کا ذاتی نظریہ کچھ اور رہا ہو تب بھی آئین میں اس کا باقی رہنا ثابت کرتا ہے کہ اُن میں دیگر خوبیوں کے علاوہ ذاتی نظریہ کو اکثریتی رائے پر قربان کرنے کی فراخ دلی بھی تھی۔
نہرو کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم عنصر تھا ناوابستگی یعنی ہم سب کے ساتھ ہیں، کسی ایک بلاک کے ساتھ نہیں۔ آج سیاسی طور پر نہرو کو اُن کی خارجہ پالیسی کیلئے بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ ناوابستگی کا اعلان کئے بغیر ہماری خارجہ پالیسی نہرو ہی کی پالیسی کی توسیع ہے کہ ہم روس کے بھی دوست ہیں امریکہ کے بھی، ہم خلیجی ملکوں سے بھی تعلقات استوار رکھتے ہیں اور افریقی ملکوں سے بھی۔ اُن کے دور کی ’’چینی ہندی بھائی بھائی‘‘ کی پالیسی بھی ہنوز جاری ہے کہ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت ۱۲۵؍ سے ۱۳۶؍ ارب ڈالر کی ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی ہندوستان اور چین کے درمیان کئی معاہدے ہیں۔ ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ سیاسی طور پر اب نہیں گونجتا مگر بہت سے شعبوں میں اسے عملاً دیکھا جاسکتا ہے۔
الزام عائد کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ نہرو نے ملک کو کیا کیا دیا ہے۔ آئین سے لے کر جمہوریت تک، ملک کے کلیدی شعبوں اور اداروں سے لے کر سائنسی ترقی تک، آزادی کے بعد نوابوں اور مہاراجوں کی ریاستوں کو ہندوستان سے جوڑنے سے لے کر دُنیا کے مختلف ملکوں سے خوشگوار مراسم تک نہرو کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دشمن کتنا ہی چاہیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، اسی لئے اکثر اوقات اُن کے خلاف ذاتی نوعیت کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں جن میں بھی رتی برابر حقیقت نہیں ہوتی، مثال کے طور پر ۲۰۱۵ء کی اُس شرارت کو یاد کیجئے جب نہرو کے وکی پیڈیا پیج پر لکھ دیا گیا تھا کہ وہ یعنی نہرو مسلمان تھے۔ ہرچند کہ اسے چند ہی منٹوں میں ہٹا دیا گیا مگر تب سے لے کر اب تک کیا کوئی دن جاتا ہے جب الزام تراشی اور کردار کشی کے ذریعہ نہرو کو ویلن کے طور پر نہیں پیش کیا جاتا؟ یہی طرز عمل مہاتما گاندھی کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے۔
نہرو کو بُرا بھلا کہہ کر مخالفین اپنے کوتاہ قد ہونے کا ثبوت دیتے ہیں نہرو کی دیومالائی شخصیت کو نقصان نہیں پہنچا پاتے کیونکہ ان کے دعوے حقائق کی کسوٹی پر پورے نہیں اُترتے۔ نہرو نے جو کچھ کیا الیکشن جیتنے کیلئے نہیں کیا تھا اور اب دُنیا جان گئی ہے کہ مخالفین کا حربہ الیکشن جیتنے اور اپنی سیاسی برتری کیلئے ہے۔ ایسے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ نہرو کی شخصیت باقی رہے گی یا مخالفین کی نہرو دشمنی۔