کملا ہیرس کی شکست سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کیا امریکہ میں کبھی ایک با صلاحیت اور قابل خاتون بھی ملک کے اعلیٰ ترین مسند پر فائز ہوسکتی ہے؟
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:17 PM IST | Mumbai
کملا ہیرس کی شکست سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کیا امریکہ میں کبھی ایک با صلاحیت اور قابل خاتون بھی ملک کے اعلیٰ ترین مسند پر فائز ہوسکتی ہے؟
ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت دنیا بھر کیلئے حیران کن ہے کیونکہ انتخابات سے قبل ہونے والے اگزٹ پولس اور تجزیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا ہیرس کی برتری دکھائی جا رہی تھی مگر ایک بار پھر تجزیے اور سروے غلط ثابت ہوگئے۔کملا ہیرس کی شکست سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کیا امریکہ میں کبھی ایک با صلاحیت اور قابل خاتون بھی ملک کے اعلیٰ ترین مسند پر فائز ہوسکتی ہے؟
امریکہ میں کسی خاتون کا صدر منتخب ہونا مشکل ہے
مراٹھی اخبار’لوک مت‘ نے ۷؍نومبر کے اداریہ میں لکھا ہے کہ سابق صدر بارک اوبامہ نے’ یس وی کین‘ کا نعرہ بلند کرکے امریکہ کو ہم آہنگی اور مساوات کے راستے پر ڈالا تھا۔اس امریکہ میں اوبامہ کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد گھڑی کی سوئی کو پیچھے کرنے کے مترادف تھی تاہم امریکیوں نے اس غلطی کو درست کیا اور ٹرمپ الیکشن ہار گئے۔ٹرمپ نے اپنی شکست کے بعد جس طرح کا تشدد برپا کیا تھا اس کے بعد کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوسکتے ہیںلیکن گزشتہ دنوں صدارتی الیکشن میں ٹرمپ نے نائب صدر کملا ہیرس کو شکست دے کر دوبارہ وہائٹ ہاؤس کا قبضہ حاصل کرلیا۔بدزبانی میں ماہر ٹرمپ کا وہائٹ ہاؤس میں جانا یقیناً پریشانی کا باعث ہے۔روس میں پوتن، چین میں جن پنگ، شمالی کوریا میں کم جونگ اور اسرائیل میں نیتن ہاہو کے بعد اب اس فہرست میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی شامل ہوگئے ہیں۔اگرچہ عوامی اور نجی زندگی میں ان کی شبیہ اور برتاؤ متنازع ہونے کے باوجود امریکیوں کا انہیں ایک اور موقع دینے کا کیا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے۔تارکین وطن کی مخالفت کرنے کے باعث کملا ہیرس کا پیچھے رہ جانا سمجھ میں آتا ہے لیکن اس سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکہ کسی خاتون کو بطور صدر تسلیم کرنے کے حق میں نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایک نو عمر گینگسٹر جوخود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگاہے
ہندوستان کیلئے کچھ اچھا ہونے والا ہے
مراٹھی اخبار ’پربھات‘ ` اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ ایک بار پھر سپرپاور امریکہ کے صدر بن گئے۔ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کیلئے درکار ۲۷۰؍ ووٹوں کی حد عبور کرلی ہے۔اب وہ دوسری بار اس مسند پر براجمان ہوں گے۔ ٹرمپ نے موجودہ نائب صدر اور ڈیمو کریٹک کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دی ہے۔اگرچہ ہندوستانی نژاد کملا ہیرس کی شکست سے کچھ لوگوں کو دکھ ہوا ہےلیکن ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ ٹرمپ کے دوسرےدور میں ہندوستان کیلئے کچھ اچھا ہونے والا ہے۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی بار کہا کہ وزیر اعظم مودی ان کے قریبی دوست ہیں اور ہندوستان ہمارا سب سے اہم پارٹنر ہے۔امریکہ میں مقیم ۳۰؍ لاکھ سے زائد ہندوستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے انہوں نے ایسا بیان دیا ہوگا،یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے۔جب ٹرمپ پہلی بار صدر بنے تو ان کا چار سالہ دور انتہائی متنازع رہا تھا۔انتخابات میں شکست کے بعد ان کے حامیوں کا پُر تشدد مظاہرہ امریکہ کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔پہلے دور میں انہوں نے کوئی بھی فیصلہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی نمائندگی کرنے کیلئے ٹرمپ کی غیر سنجیدہ سوچ کے باوجود امریکی عوام نے ریپبلکن پارٹی کو اقتدار سونپا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ رہی کہ گزشتہ چار برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے کچھ مختلف نہیں کیا۔بائیڈن جیسے معمر صدر امریکی عوام کو راس نہیں آئے۔‘‘
امریکہ فرسٹ پالیسی کے حامی ہیں ٹرمپ
ہندی اخبار `دو بجے دوپہر ` نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’اپنی دوسری اننگز کیلئے ڈونالڈ ٹرمپ پھر امریکہ کے صدر بننے جارہے ہیں۔حالانکہ امریکہ فرسٹ کو ترجیح دینے والے ٹرمپ کی پالیسیاں تجارت اور امیگریشن کے معاملے میںہندوستان کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۱ء کے درمیان بطور صدر ٹرمپ کی پہلی اننگز کے دوران کئی محاذوں پر کام کرنے کا تجربہ مودی سرکار کے پاس ہے۔مودی وقتاً فوقتاً ٹرمپ کو اپنا دوست کہہ کر مخاطب کرتے رہے ہیںتاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حال کے دنوں میں ہندوستان کیخلاف سخت رویہ اپنانے والے بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کو ٹرمپ کوئی نمایاں تبدیلیاں کریں گے۔پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکی پالیسیاں امریکہ سے شروع ہوکر امریکہ ہی پر ہی ختم ہوجاتی ہیں۔اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ ہندوستان کی اقتصادی تحفظ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ٹرمپ جو امریکہ فرسٹ پالیسیوں کے کٹر حامی ہیں۔ ماضی میں امریکہ سے درآمد کی جانے والی ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل پر ٹیرف کم کرنے پر ہندوستان کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ اصل میں تاجر سے سیاستداں بنےٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران بھی امریکی صنعتوں کی حفاظت کو اپنی ترجیح بنایا تھا۔ایسے میں ممکن ہے کہ وہ امریکی مصنوعات اور خدمات کے تحفظ کے حوالے سے ہندوستان کے خلاف جارحانہ رخ بھی اپنائیں۔وہ اپنی سہولت کے مطابق کئی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کیلئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ ہندوستانی برآمدات پر محصولات بڑھا کر وہ ہمارے لئے معاشی مسائل پیدا کریں۔‘‘
ٹرمپ کی پالیسیوں کا اثر ہندوستان پر بھی ہوگا
انگریزی اخبار `دی’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکہ کے ۴۷ ؍ویں صدر کے طور پر انتخاب اس ملک کی سیاست پر گہرا اثر ڈالے گا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دیتے رہے۔دراصل اپنے پہلے دور میں ٹرمپ نے امریکہ کو ماحولیاتی کارروائی پر پیرس معاہدہ اور ایرانی جوہری معاہدہ جیسے اہم عالمی انتظامات سے باہر نکالا۔امید کی جارہی ہے کہ اپنی دوسری صدارتی میعاد کے دوران بھی وہ اسی طرح کے مزید اقدامات کریں گے۔
یورپ میں ٹرمپ کی صدارت کا سب سے فوری نتیجہ روس،یوکرین جنگ کی رفتار کو کم کرنا ہوسکتا ہے۔یہ بات بھی اتنا ہی سچ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کا شکار ہندوستان بھی ہوسکتا ہے۔وہ اپنی گھریلو مصنوعات کو بحال کرکے امریکہ کی معاشی حالت کو مستحکم بنانے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ہندوستان اور امریکہ کا دفاع اور سلامتی میں مشترکہ طور پر مل کر کام کرنے کی پالیسی جاری رہے گی۔ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہونے والے تشدد پر فوری طور پر روک لگانے کی سمت میں کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے۔ہندوستان بھی خواہش کرے گا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت کی طرح ان کی دوسری میعاد میں بھی دو طرفہ تعلقات مضبوط ہوں۔‘‘