• Sun, 12 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اِس وقت حقیقی دُنیا میں بچوں کو بدمعاشوں سے زیادہ خطرہ آن لائن دنیا میں ہے

Updated: January 12, 2025, 2:53 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

جوناتھن ہائیٹ نے اپنی چشم کشا تصنیف’’اینکشئِس جنریشن‘‘ میں نئی نسل پرجدید تکنالوجی کے مضر اثرات اوران کی ذہنی صحت میں  آنے والی گراوٹ پر بحث کی ہے اور نفسیاتی سیکوریٹی کے مدافعتی نظام کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

یہ مضمون آپ کو بہت بے چین کرسکتا ہے! ماحول خراب ہے۔ اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر آپ فکرمند رہتے ہوں  گے اور کچھ نہ کچھ کرتے بھی ہوں گے۔ لیکن زندگی کے آئینے پر جمی گرد صاف کریں تو جو کچھ نظر آئےگا وہ آپ کو بہت خوف زدہ کر سکتا ہے۔ آپ کے نور نظر، لخت ِ جگر بڑے ہو کر یا اس سے پہلے جو کر سکتے ہیں وہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ ہمارے پیشِ نظر ۲۰۲۴ء کی مقبول غیر افسانوی کتاب ’’اینکشئِس جنریشن‘‘ ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر جوناتھن ہائیٹ نے بچوں اور نوعمروں کی ذہنی صحت میں ہونے والی زبردست گراوٹ پر بحث کی ہے۔ ۱۹۹۵ء کے بعد والی نسل ’’ Gen Z‘‘ یا نسلِ زی کو مصنف ’’ نسلِ مضطرب‘‘ کہتا ہے۔ اس نسل میں تیزی سے اُبھرتے غصے، الجھن اور بیقرای کی کیا وجوہات ہیں ؟ نونہالوں کی کشیدہ ذہنی، سماج کی بنیادوں کو کس طرح کمزور کر رہی ہے؟ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈپریشن، ذہنی تناؤ، نشے کی عادت، خود کو زخمی کرنا اور خودکشی جیسے معاملات اس نسل میں تشویشناک حد سے اوپر جا پہنچے ہیں۔ 
جوناتھن ہائیٹ ایک امریکی سماجی ماہر ِ نفسیات ہیں۔ کہتے ہیں کہ’’میرے مشن کا مقصد ہے کہ اخلاقی نفسیات کے شعبے میں تحقیق کو، لوگوں کے درمیان تعلقات میں بہتری اور اہم سماجی اِداروں میں اصلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔ ‘‘ تکنالوجی زندگی کو آسان بناتی ہے لیکن ہم زندگی کو آسانی سے مشکل بنادیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو موبائل فون اور ٹیب کمپیوٹر استعمال کرنے دیتے ہیں۔ اُن کے ممکنہ مضر اثرات کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔ اِن آلات میں پروسی جانے والی خوراک بُری لت کی شکل میں ہمارے جگر گوشوں کو جکڑ لیتی ہے۔ ایک طفل ِ شیر خوار بھی چُوچُو ٹی وی دیکھنے کی شدید ضِد کرتا ہے۔ پسندیدہ کارٹون دیکھے بغیر بچے کے حلق سے کھانا نہیں اُترتا۔ مائیں بھی جان چھڑانے میں عافیت محسوس کرتی ہیں۔ ’’جینیریٹیو اے آئی‘‘ یعنی تخلیقی مصنوعی ذہانت کا دور ہے۔ حقیقی سے بڑھ کر حقیقی محسوس ہونے والی تصویریں، ویڈیو، خبریں اور کہانیاں گھڑنا ممکن ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا اور گیمنگ پلیٹ فارم بنانے والی کمپنیوں نے انسانی اور بالخصوص نسل زی کی نفسیات کا خوب استحصال کیا ہے۔ ہماری آن لائن زندگی بہت زیادہ اُلجھانے والی ہوگئی ہے۔ ہم بھٹکی اور بکھری شخصیتوں کے ساتھ جینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ 
بازار کی طاقت اپنی گھناونی شکل دکھا رہی ہے۔ ایک بچہ کسی ویب سائٹ پر یہ جھوٹا اقرار کرتا ہے کہ اسکی عمر ۱۸؍ سال سے زیادہ ہے اور وہ ایپ بآسانی تسلیم کرلیتا ہے۔ جیسے وہ پورٹل خود ایک بھولا بھالا بچہ ہو۔ کمپنیاں تکنالوجی پر مبنی نت نئی مصنوعات بازار میں لاتی ہیں، لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ کھینچنے والے فیچر متعارف کراتی ہیں تاکہ وہ حقیقی دنیا میں جینے کے بجائے آلے کے سامنے زیادہ وقت گزاریں۔ اُن پر کوئی خاص پکڑ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ’’ توجہ کی معیشت‘‘ میں اشتہار کا بزنس ماڈل’’ہل مِن مزید‘‘ پر منحصر ہے۔ زیادہ صارفین کو پھانسو، انہیں دھڑادھڑ میسج فارورڈ کرنے اور رِیل دیکھنے پر آمادہ کرو۔ فحش بینی یقیناًدیو قامت مسئلہ ہے لیکن یہاں اور بھی کئی عفریت موجود ہیں۔ آن لائن گیم بالخصوص وہ جنہیں متعدد افراد اپنے اپنے مقامات پر ہوتے ہوئے، مِل کر کھیلتے ہیں دماغ کی صحت کیلئے بیحد خطرناک ہیں۔ لوگوں کے چہیتے سپر اسٹار آن لائن رمی یعنی جوئے کو مشتہر کرنےلگے ہیں۔ آسانی سے دولتمند بننے کا بالکل قانونی جھانسا! بحران بہت زیادہ سنگین ہے۔ 
گزشتہ سال آکسفورڈ انگلش لغت میں ایک نیا لفظ شامل ہوا ہے۔ ’’ برین روٹ‘‘یعنی دماغ کی سڑاند جو مسلسل آلائن مواد د یکھنے کی وجہ انسان کی ذہنی صلاحیتوں میں پیدا ہوتی ہے۔ بچے اس رُجحان کے اوّلین شکار ہیں۔ نیند سے محرومی، توجہ کی ٹوٹ پھوٹ، اور لت لگنا جیسے مسائل عام ہو رہے ہیں۔ نوعمروں سے جسمانی کھیلوں کے شوق اور سماجی میل ملاقات کے وقت کو سوشل میڈیا ہتھیا چکا ہے۔ اُن کی دماغی وائرنگ ہی بدل گئی ہے۔ اب اُنکا دماغ ایک تبدیل شدہ سَلکی نظام کے تحت سوچتا سمجھتا ہے۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں میں زندگی کی طرف دیکھنے کا نظریہ ہی بدل رہا ہے۔ 
ایسے میں بڑوں نے اپنے بچوں کو حد سے زیادہ تحفظ کے ماحول میں رکھنے کی کوشش کی۔ حقیقی دنیا میں آزادی اور کھلے پن کی کمی کے اثرات بھی کافی زیادہ ہوئے۔ لہٰذا ’’کھیل پر مبنی بچپن‘‘کی جگہ’’ فون پر مبنی بچپن‘‘ نے لے لی ہے۔ نتائج ہولناک ہیں۔ نوعیت کی بنیادی تبدیلی کو مصنف، بچپن کی عظیم ترتیب نو کہتا ہے۔ ہمیں اُسکی خبر ہے اور نہ اُسکے اثرات کا اندازہ !
نسلِ زی کے اولین افراد، ۲۰۰۹ کے اطراف سنِ بلوغت کو پہنچے۔ اس دوران اچانک زبردست تکنیکی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تیز رفتار براڈ بینڈ اور سوشل میڈیا، متعدی امرض کی طرح پھیلے۔ ۲۰۰۹ء میں لائک اور شئیر کے بٹن متعارف کرائے گئے۔ مصنف کہتا ہے کہ ان سہولتوں نے آن لائن ورلڈ یعنی عالم ِ بر خط کی سماجی حِرکیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ سوشل میڈیا سماجی رابطوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے اور اِس طرح رشتوں کے معیار کو کم کرتا ہے۔ برخط(آن لائن) دوستی میں وہ حفاظتی آڑ بھی نہیں ہوتی جو حقیقی رابطوں میں ہوتی ہے۔ ایک جانب بچہ، رشتہ داروں اور دوستوں کی میل ملاقات سے دور ہوتا جا رہا ہے دوسری جانب اس کیلئے نیٹ پر کسی بھی انجان فرد سے رابطہ کرنا اور قریبی تعلق قائم کرنا بے حد آسان ہے۔ اِس کا اثر لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں پر نظر آیا ہے۔ لڑکیاں دوسروں سے تقابل خصوصاً خوبصورتی اور کمال پسندی سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ رشتوں کو لے کر لڑکیوں میں زیادہ جارحیت ہوتی ہے۔ جذبات اور مسائل کےاظہار کیلئے لڑکیوں کو نسبتاً آسانی سے اُکسایا جا سکتا ہے۔ لڑکیاں زیادہ شکار ہوتی ہیں اور ہراساں کی جاتی ہیں۔ 
کتاب ۲؍رجحانات کی طرف اِشارہ کرتی ہے جن کی وجہ سے نسلِ زی ایک بیچین نسل بن گئی ہے۔ 
۱)حقیقی دنیا میں بچوں پر ضرورت سے زیادہ روک ٹوک و تحفظ 
۲) ورچوئل یعنی مجازی دنیا میں ضرورت سے کم نگرانی و تحفظ 
مصنف صحت مند بچپن واپس لانے کی خاطر چار اصلاحات تجویز کرتا ہے:
نویں کلاس سے پہلے بچوں کو ذاتی اسمارٹ فون نہ دیئے جائیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت سے عاری، صرف بنیادی فون کی اجازت ہو۔ 
سولہ برس کی عمر سے قبل سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع ہو۔ 
فون سے پاک اسکول ؛ بچوں کے فون، اسمارٹ گھڑیاں وغیرہ گیٹ پرجمع کر لئے جائیں۔ 
تعلیم کیلئے انٹرنیٹ کے مثبت استعمال سے مصنف انکار نہیں کرتا۔ وہ خان اکیڈمی کے تعلیمی پروگراموں کی تعریف کرتا ہے۔ 
•ماں باپ کے نگرانی سے دور بچوں کو آزادی سے خوب کھیلنے کودنے کے مواقع ملیں۔ اِس طرح بچوں میں قدرتی طور پر سماجی زندگی کیلئے ضروری قوتِ مدافعت پیدا ہوگی۔ بچوں کو حقیقی دنیا میں خطرات اور جوکھم اُٹھانے کی تربیت ضروری ہے۔ خود کی کسی قدر جسمانی حفاظت کرسکنے کا نظام ہر عمر کے انسان میں ہوتا ہے۔ مصنف کے مطابق اِس وقت حقیقی دنیا میں موجود بدمعاشوں اور بدنیتوں سے بچوں کو جتنا خطرہ ہے اس سے کئی گنا زیادہ آن لائن دنیا کے وحشی درندوں سے ہے۔ نفسیاتی سیکوریٹی کے مدافعتی نظام کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اینٹی فریجائل یعنی نہ ٹوٹنے والے بنانا ضروری ہے۔ 
کتاب گہری تحقیقات پر مبنی ہے۔ مصنف خالی خولی ڈراونی باتیں نہیں کرتا۔ اُسکا انداز ناصحانہ ضرور معلوم ہوتا ہے مگر اُسلوب خالص علمی ہے۔ ہائٹ نے رائے شماریوں کے نتائج، جدولوں، ارٹوں و گرافکس کے ذریعہ پیش کئے ہیں۔ زیادہ تر نتائج مغربی ممالک میں کئے گئے تجربات سے ماخوذ ہیں۔ حال ہی میں آسڑیلیا نے ۱۶؍ سال سے کم عمروں کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال کو ممنوع کرنے کا قانون پاس کیا ہے۔ مغربی ملکوں اور ہندوستان کے سماجی ڈھانچے اور نظامِ اقدار میں فرق ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے ہاں مسئلہ مغرب کے تناسب میں کچھ کم ہو۔ یہاں کا سماجی ڈھانچہ، مذہب و روحانیت کا پاس و لحاظ کسی حد تک مسئلہ کی شدت کو کم کرتے ہیں لیکن ہمارے اطراف بھی جو ہورہا ہے وہ کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مبصر، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا وغیرہ کا مخالف نہیں۔ البتہ اُن کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کی پرزور مخالفت کرتا ہے۔ رول سب کا ہے؛ اسکولوں کا، والدین کا، حکومتوں کا اور ٹیک کمپنیوں کا۔ مشترکہ لائحہ عمل اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سماجی معمولات متعین کئے جائیں، اخلاقی نگرانی کی جائے۔ قانون اور اِقتدار سے قوت حاصل کی جائے۔ خود تکنالوجی کی بھی مدد لی جائے۔ یہ کتاب ہمارے جگر گوشوں کے گمشدہ بچپن کے بازیافت کی ایک سنجیدہ دعوت ہے۔ یہ چشم کُشا تصنیف صرف والدین و اساتذہ کے لئے ہی نہیں، انسانیت کے مستقبل کیلئے فکرمند ہر شخص کیلئے ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK