امین آباد کی گلیوں میں لوگوں کا ریلا بڑھتا گیا۔ مَیں یہاں کبھی آئی تھی۔ میرے ذہن میں ٹوٹے پھوٹے سے راستے اور مکان کے نقوش اور موڑ آرہے تھے۔
EPAPER
Updated: November 12, 2024, 12:29 PM IST | Jannat Mehmood | Mumbai
امین آباد کی گلیوں میں لوگوں کا ریلا بڑھتا گیا۔ مَیں یہاں کبھی آئی تھی۔ میرے ذہن میں ٹوٹے پھوٹے سے راستے اور مکان کے نقوش اور موڑ آرہے تھے۔
نوابوں کا شہر، ہمارا لکھنؤ۔ امین آباد کی گلیوں میں اودھ سی شام اتری تھی۔ گلیوں کی طرح وسیع و عریض راستے بھی باعث ہجوم تنگ تھے۔ شام کی زرد روشنی میں ہر تاریخی بلوائی پتھر کے قلعے سے سونے کے ذرات چمک رہے تھے۔ میں سست روی سے سڑک کے کنارے چل رہی تھی جب مَیں نے پرس سے موبائل کی آواز سنی۔ فون نکالا گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔
’’امی....‘‘
’’ہاں! السلام علیکم!‘‘
مَیں اور آہستہ سے چلنے لگی۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ آواز اس طرح سے تھی گویا فون بہت دور ہو۔
’’رضیہ خالہ سے ملاقات کر لینا۔‘‘ شور اور رش میں بمشکل میں اتنا ہی سن سکی.... ’’ہاں وہیں جا رہی ہوں۔‘‘ کہہ کر فون بند کر دیا۔
امین آباد کی گلیوں میں لوگوں کا ریلا بڑھتا گیا۔ مَیں یہاں کبھی آئی تھی۔ میرے ذہن میں ٹوٹے پھوٹے سے راستے اور مکان کے نقوش اور موڑ آرہے تھے۔ ایک مختصر سے سفر کے بعد مَیں اپنی منزل مقصود پر پہنچی۔ گھر پرانی طرز کا بنا تھا۔ منقش در و دیوار، محراب، طاق.... گیٹ کھلا تھا۔ اندر چھوٹا دالان تھا، اس طرح کہ وہاں سے سامنے صحن نظر آرہا تھا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے سلام کیا، پتہ نہیں وہ مجھے پہچانیں گے یا نہیں۔
’’وعلیکم السلام! آپ کھڑی کیوں ہیں، اندر آئیں۔‘‘ خندہ پیشانی سے پیش آئیں، گویا کسی محل کی ملکہ ہوں۔ اگرچہ وہ دیوار منقش تھی لیکن اندر سے کھوکھلی تھی۔ دیواروں میں دراڑیں تھیں۔ چھت کے ایک کنارے سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آنگن کے ایک طرف چولہا نصب تھا۔ گھر صاف ستھرا تھا بجز اس کے جسے صاف نہیں کیا جاسکتا۔ (ان کے چہرے پر کسی شکایت کا آثار نہیں تھا)۔
’’علیمہ نے بتایا تھا کہ آپ آرہی ہیں۔‘‘ پلاسٹک ٹرے میں رکھے دو پلیٹ میں کباب اور کھورما تھا۔ جسے لے کر میرے پاس آئی۔ صحن سے سرد بھینی بھینی ہوا آرہی تھی۔ جس سے کباب کی خوشبو پورے دالان میں چھن چھن کر پھیل اٹھی۔
’’آپ کا تعلیمی سلسلہ کیسا چل رہا ہے؟‘‘ بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔ میں کچھ دیر تک دیکھتی رہ گئی کہ اتنی خوبصورت زبان اتنا ہی نرم لہجہ۔
’’اف یہ تو لکھنؤ ہے نا....‘‘
’’اچھا بہت اچھا.... بس مجھے رامپور سے سرٹیفکیٹ لینے جانا تھا عالم فاضل کا۔‘‘
’’آپ کا....‘‘ ان کی بات کٹ گئی۔ منقش دروازے پر ایک سفید چہرہ سیاہ مونچھ والا لمبا چوڑا سا آدمی کھڑا تھا۔ بلا جھجھک وہ اندر آیا۔
’’یاقوت آپ....‘‘ وہ مضطرب سی کھڑی ہوئی اور کرسی آگے بڑھا دی، ’’بیٹھ جائے۔‘‘ وہ کرسی سے تھوڑی دوری پر کھڑی تھی۔
’’آپا ہم وہ کہہ رہے تھے کہ تقسیم کا سلسلہ چل رہا ہے تو....‘‘ اس نے اپنے کان کے لو کو دو انگلیوں سے دبایا۔ بات یوں شروع کر دی جیسے کسی کے ہونے کا احساس ہی نہیں، نہ سلام نہ دعا، عجیب آدمی ہے۔ خیر....! مجھے کیا۔
’’تو چار حصہ کر دیا ہے ہم لوگوں نے چاروں بھائی کے لئے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کو ضرورت ہے کہ نہیں.... بعد میں یہ نہ ہو کہ ہم لوگوں نے بٹوارا کر لیا اور آپ سے پوچھا نہیں.... سعیدہ آپا سے پوچھا تو انہوں نے منع کر دیا۔ وہ اس طرح بات کر رہا تھا گویا جواب ’نہ‘ میں مل جائے اور مَیں چلا جاؤں۔
’’ارے نہیں! ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ آپ لوگ لے لیجئے۔‘‘ وہ ہچکچاتے ہوئے اتنا ہی کہہ سکیں۔
’’ٹھیک ہے پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘
اوہ.... تو واقعی اسے جواب نفی میں ہی چاہئے تھا۔ وہ کھڑا ہوا اور دروازے کی جانب پلٹ گیا۔ کتنا سفید خون ہے اس کا۔ وہ اس آدمی کو یوں ہی حیرت کے عالم میں دور جاتے دیکھ رہی تھیں۔
’’خالہ....!‘‘ میری آواز پر وہ چونکی اور دوبارہ بیٹھ گئیں۔ کباب کی پلیٹ میری جانب بڑھائی۔
’’امی نے.... بتایا تھا کہ.... آپ کو ضرورت تھی اس کی۔‘‘ میری بات سن کر وہ اتنی بے رخی سے پلٹا تھا کہ مجھے بات کرتے ہوئے شرم آرہی تھی۔ وہ بھی لجت تھیں۔
’’کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنا حق مانگ لیں گے تو مہینے میں جو کچھ مل جاتا ہے وہ بھی بند ہو جائے گا۔ رشتے.... خراب ہو جائیں گے۔ ضرورت تو.... تھی ہمیں لیکن....‘‘
’’لیکن کیا؟ وہ ان کا تو نہیں جو آپ سے پوچھنے آئے تھے۔ وہ تو آپ کا حق ہے۔آپ کو بلا جھجک ’ہاں‘ کہنا تھا۔
’’اور آپ کو... لگتا ہے یہ معاشرہ ہمیں.... جینے دیتا۔ بعض اوقات حالات من چاہی چیزوں پر صبر کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ شاید ان کا گلا بھر رہا تھا۔ الفاظ ٹوٹے پھوٹے تھے۔
’’کیا آپ نے معاشرے کی ڈر سے اپنا حق سلب کرنے دیا۔ اپنے حق پر خاموش رہنا صبر تو نہیں کہلاتا۔ یہ نا انصافی ہے، یہ شریعت سے بغاوت ہے۔ مجھے واقعی بہت ملال ہوا۔‘‘
’’جب ہماری بہن نے بھی لینے سے منع کر دیا تو ہم کیسے لے لیں؟‘‘
’’ضروری تو نہیں کہ اگر آپ کی بہن کو ضرورت نہیں تو آپ کو بھی نہیں؟‘‘
’’ہم نہیں مانگ سکتے.... ہم چاہ کر بھی نہیں مانگ سکتے۔‘‘
وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی نہ جانے کیوں نہیں کہہ رہی تھیں۔ شاید معاشرے کے ڈر سے....
’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے معاف کر دیا ہے تو یہ جان لیں کہ یہ آپ کا حق ہے۔ شریعت ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ آپ معاشرے کے ڈر سے اپنا حق چھوڑ دیں۔‘‘ مَیں انہیں بتاتی رہی وہ اس طرح مجھے دیکھ رہی تھی گویا کہہ رہی ہوں سارے راستے بند ہوچکے ہیں۔ مَیں مجبور ہوں۔
مَیں کچھ دیر ٹھہری کچھ یاد کرنے کے لئے۔ گھر میں خاموشی چھا گئی ایسی خاموشی جیسے کہنے کے لئے کچھ باقی نہ ہو۔ دیوار سے پانی کے ٹپکنے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔
’’کیا آپ نے قران کی وہ آیت نہیں پڑھی: مردوں کا بھی حصہ ہے۔ جو چھوڑ مرے ماں باپ اور قرابت والے۔ اور عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ جو چھوڑ مرے ماں باپ اور قرابت والے۔ تھوڑا ہو یا بہت ہو حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘
انہوں نے امید کی نظر سے مجھے دیکھا، گویا تاریک بند دروازے سے امید کی روشنی پھوٹی ہو۔ لیکن وہ کرن ٹھہری نہیں پھر سے تاریکی چھا گئی۔ انہوں نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ جیسے ان کے سامنے معاشرے اور رشتہ داروں کے طنز و طعنے کے منظرآگئے ہوں۔
مَیں نے جو کچھ کہا مجھے کچھ افسوس نہیں ہوا کیونکہ میں نے صرف حق کہا۔ دروازے سے یکا یک ان کے بچے اندر آنے لگے۔
مَیں کچھ دیر ان کے ساتھ بات کرتی رہی۔ پھر سلام کرکے باہر آئی۔
امی کو ٹیکسٹ میسج کر دیا: ’’ہوگئی ملاقات آپ کی سہیلی سے۔‘‘
اودھ کی شام ممبئی کی رات میں بدل چکی تھی۔ دکانوں کی لائٹس جگمگا رہی تھیں۔ لیکن ان ہزار ہنس مکھ چہروں میں کتنے ہی رضیہ خالہ کی طرح دل میں ملال لئے مصنوعی مسکراہٹ چہروں پر سجائے ہوئے ہوں گے۔
مگر کون جانے....؟