Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

کوئی تو وجہ ہوگی زیلنسکی کو اتنا ڈانٹنے کی!

Updated: March 02, 2025, 1:55 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ڈونالڈٹرمپ جوکچھ بھی کررہے ہیں خواہ وہ زیلنسکی کی سرزنش ہی کیوں نہ ہو، وہ محض اس لئے ہے کہ وہ چین پر یکسو رہ سکیں اور اس کی ترقی کی راہ روک سکیں۔ ایسا وہ اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ چین اُن کی نظر میں امریکی بالادستی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نےیوکرین کے لیڈر کی سرزنش کی کہ آپ عالمی جنگ کا ماحول تیار کررہے ہیں ۔ مَیں  حیران ہوں  کہ اس پر کیا لکھا جائے۔ گزشتہ سال نومبر میں  یعنی صرف تین ماہ پہلے، اخبارات میں  شائع ہوا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو امریکی ساخت کے میزائلوں  سے روس میں  حملے کی ’’اجازت‘‘ دی ہے جس سے جنگ کے بڑھنے کا اندیشہ شدید تھا، مگر، اس کے بعد رائٹرس نے ایک رپورٹ شائع کی جس کی سرخی تھی ’’بائیڈن، میزائلوں  کے بارے میں  اپنے فیصلے کے ذریعہ تیسری عالمی جنگ کے حالات پیدا کررہے ہیں ۔‘‘ رائٹر نے یہ خبر روس کے ایک قانون ساز کے حوالے سے جاری کی تھی۔ اس سے پہلے کے مہینے (اکتوبر ۲۴ء) میں  امریکہ کے سب سے بڑے بینک کے سربراہ کا یہ بیان اخبارات کی ایک سرخی میں  شائع ہوا کہ ’’مغربی طاقتوں  پر خطرہ منڈلا رہا ہے اور یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج جائےگا۔‘‘ یہ بیان جے پی مورگن کے سی ای او جامی ڈائمن کے حوالے سے جاری ہوا تھا۔ ڈائمن صرف یوکرین کی جنگ کے بارے میں  اظہار خیال نہیں  کررہے تھے بلکہ غزہ میں  ہونے والی نسل کشی بھی اُن کے پیش نظر تھی، چین کا بڑی طاقت بن کر اُبھرنا بھی اُن کے ذہن میں  تھا اور ان سب کے پیش نظر اُنہیں  یہ محسوس ہوا تھا کہ حالات تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ 
 اس پس منظر میں  کہا جاسکتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کے اووَل آفس میں  جمعہ کو جو حالات رونما ہوئے وہ واحد موقع اور وقت نہیں  تھا جب انسانیت کو لاحق تیسری عالمی جنگ کے شدید خطرہ پر بحث ہوئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے کیسے سمجھا جائے۔ آئیے ہم اپنی سی کوشش کریں  تاکہ اس سوال کا جواب تلاش کیاجاسکے۔ 
 اس کی شروعات میں  ہمیں  یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کیا چاہتے ہیں ۔ بظاہر اس سوال کاجواب حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ ٹرمپ بہت سے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں  اور بہت بولتے ہیں ، بولتے ہی رہتے ہیں ، پھر اُن کا کہنا سننابھی اتنا سرسری ہوتا ہے کہ اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنامشکل ہی ہوتا ہے۔ اُن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ احمق ہیں  اور سیمابی کیفیت اُن پر ہمہ وقت طاری رہتی ہے۔ یہ بات کہنا آسان ہے مگر اس کی توثیق اور تائید نہیں  کی جاسکتی کیونکہ جس کےبارے میں  یہ بات کہی گئی ہے اُس نے امریکی صدارتی انتخاب جیتا ہے، وہ کوئی عام آدمی، کسی عام سے ادارہ کا سربراہ یا کوئی چھوٹا موٹا الیکشن جیتنے والا سیاستداں  نہیں  ہے۔ اس ضمن میں  یہ بھی ذہن میں  رہنا چاہئے کہ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب پہلی مرتبہ نہیں  جیتا ہے۔ وہ اس اہم الیکشن میں  دو مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جانتے ہیں  کہ کیا بول رہے ہیں  اور کیا کررہے ہیں ۔ اس موضوع کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں  ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ یہ بھلے ہی مفروضہ ہو مگر حقیقت بھی ہوسکتا ہے یعنی وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ، کررہے ہیں  وہ سوچا سمجھا ہے۔ 
 لگتا یہی ہے کہ امریکی صدر کا حقیقی ہدف چین ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں  کہ چین کی ترقیاتی پیش رفت کو روک دیں  تاکہ وہ امریکہ کی برابری کے قابل نہ رہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں  کہ امریکی ڈالر ہی دُنیا بھر کے ملکوں  کی ریزرو کرنسی کے طور پر موجود اور اس کی حاکمیت برقرار رہے۔ امریکی صدر کی کوشش یہ بھی ہے کہ مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹس میں  چین نے جو زمین امریکہ سے چھینی ہے وہ اُسے واپس مل جائے۔ اسی لئے، اُن کی جتنی بھی سرگرمیاں  اور بیانات ہیں  اُنہیں  اسی تناظر میں  یعنی چین ہی کے زاویئے سے دیکھنا چاہئے۔ اگر ماضی کی شرح نمو کو سامنے رکھ کر چین کی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہم اسی نتیجے پر پہنچیں  گے کہ آئندہ چند دہائیوں میں  چین کی معیشت امریکی معیشت کے برابر ہوجائے گی اور پھر اسے پیچھے چھوڑ دے گی۔ ٹرمپ نہیں  چاہتے کہ چین کو اس کا موقع ملے۔ اُنہوں  نے اپنی صدارت کے دورِ اول میں  چین پر جو بندشیں  لگائی تھیں  جو سابق صدر بائیڈن کے دور میں  بھی جاری رہیں  اُن کا مقصد یہی تھا کہ چین تکنیکی اعتبار سے اس قدر ترقی نہ کرے کہ امریکی بالادستی کو ٹھیس لگے اور عالمی اُمورمیں  امریکہ کی وہ حیثیت نہ رہ جائے جو ہے۔ صدارت کی نئی میعاد میں ، جو ۲۰؍ جنوری سے شروع ہوئی،  ٹرمپ نے امریکہ میں  درآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر مزید ۱۰؍ فیصد کا ٹیکس لگادیا ہے۔ اس اضافی ٹیکس کا نفاذ اسی ہفتے سے ہونا ہے۔ انہوں  نے تو یہاں  تک دھمکایا ہے کہ وہ اس کو ۶۰؍ فیصد تک لے جاسکتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے چین میں  خاصی اتھل پتھل مچے گی مگر امریکہ میں  کچھ نہ ہو ایسا نہیں  ہے۔ اس سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگی کیونکہ دونوں  ملکوں  کی بہت سی صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی لوگوں  نےٹرمپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں  اس سے چین کو تو نقصان پہنچے گا مگر صرف چین کو نہیں ، امریکہ کو بھی پہنچے گا بالخصوص امریکی صارفین متاثر ہوں  گے مگر اس مشورہ یا انتباہ سے ٹرمپ کے کان پر جوں  تک نہیں  رینگی۔وہ اتنی جلدی کسی بات کا اثر قبول بھی نہیں  کرتے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’دے اور دِل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور‘‘

 برکس کے شریک ملکوں  کو بھی ٹرمپ نے جو دھمکیاں  دی ہیں وہ بھی محض اس لئے ہیں  کہ کوئی دوسری کرنسی ڈالر کے مقابلے میں  نہ آسکے۔ اسی لئے وہ چین کو مسلسل دباؤ میں  رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کے خیال میں  چین پر دباؤ تبھی ممکن اور مؤثر ہوگا جب یوکرین اور فلسطین کی جنگیں  رُکیں  گی۔ ٹرمپ یقیناً یہی چاہتے ہوں  گے کہ اُن کا دھیان اِدھر اُدھر نہ بھٹکے بلکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امریکی بالادستی اور ڈالر کی حاکمیت کو یقینی بنائیں ۔ جب بھی عالمی بازار میں  غیر یقینی صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کا فائدہ امریکی ڈالر کو پہنچتا ہے جیسا کہ ہم موجودہ حالات میں  دیکھ رہے ہیں ۔ ٹرمپ اس سے لگی بندھی ایک اور بات شاید بھول رہے ہیں ، وہ یہ کہ جب بھی ڈالر مضبوط ہوتا ہے، امریکی درآمدات متاثر ہوتی ہیں ۔ اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو جس تجارتی خسارے کو ٹرمپ کم کرنا چاہتے ہیں  وہ جوں  کا توں  رہے گا،  اس میں  تخفیف نہیں  ہوگی۔ ٹرمپ نے اس بابت سوچا ہے یا نہیں  ہم نہیں  جانتے ۔ اگر سوچا ہے تب بھی اپنے فیصلوں  پر اَڑے ہیں  تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اُن کے خیال میں  ابھی اُن کے پاس کافی وقت ہے۔ چار سال۔ اور چار سال کم نہیں  ہوتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK