Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

صحت اور حیاتیات کے شعبے میں اے آئی کا کردار

Updated: March 30, 2025, 1:30 PM IST | Sandeep Vasilekar | Mumbai

اے آئی نئے کیمیکلز بنا سکتا ہے۔ ایک بدمعاش سائنسداں اس کا غلط استعمال کرکے دنیا میں تباہی برپا کرسکتا ہے۔

How AI is being used to find drugs for cancer and Alzheimer`s disease. Photo: INN.
کینسر اور الزائمر کی بیماری کی دوائیں تلاش کرنے کیلئے اے آئی کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

مارچ ۲۰۲۳ء میں چیٹ جی پی ٹی ۴؍ کی ریلیز کے بعد آرٹی فیشیل انٹیلی جنس (اے آئی، مصنوعی ذہانت) نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لیکن اس سے قبل بھی اس میدان میں دلچسپ پیش رفت ہوئی، جس نے انسانیت کو صحت کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں مدد دی۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر ڈاکٹر کامران خان بلیو ڈاٹ کمپنی کے بانی ہیں۔ یہ کمپنی بعض بیماریوں کی پیش گوئی کیلئے اے آئی استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا ہے جو خبروں کی ویب سائٹس سے لے کر ایئر لائن کی بکنگ تک کے ذرائع سے لے کر ۶۵؍ زبانوں میں روزانہ ایک لاکھ مضامین کی ٹریکنگ کرتا ہے۔ دسمبر ۲۰۱۹ء میں انہوں نے چین کے ووہان مارکیٹ میں ایک نئے وائرس کا سراغ لگایا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ یہ وائرس چین سے باہر پھیل جائے گا۔ انہوں نے کنیڈا میں اپنے گاہکوں کو مشورہ دیا کہ وہ ووہان جانے والے راستوں سے گریز کریں۔ خیال رہے کہ انہوں نے ایسا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) کی طرف سے کووڈ ایمرجنسی کا اعلان کرنے سے ایک ماہ قبل کہا تھا۔ انہوں نے جو اے آئی استعمال کیا اسے ’’نیرو اے آئی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اے آئی کا ایسا مخصوص نظام ہے جو کسی مخصوص مسئلے کیلئے وقف ہے۔ یہ چیٹ جی پی ٹی کی طرح عام مقاصد کیلئے استعمال ہونے والا اے آئی نہیں ہے۔ 
 فائزو اور موڈرینا نامی دو فارماسیوٹیکل کمپنیاں، کووڈ ۱۹؍ کیلئے ویکسین تیار کرنے کیلئے ’’نیرو اے آئی‘‘ کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے ذریعہ استعمال کیا جانے والا پلیٹ فارم کئی دہائیوں سے تیار ہو رہا تھا۔ اے آئی نے پروٹین کے ڈھانچے کا تجزیہ کرنے اور امیدواروں کی ویکسین کو بہتر بنانے میں مدد کی۔ اس سے نئی ویکسین بنانا ممکن ہوا۔ واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو طویل طبی مسائل کے حل تلاش کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا ڈاکٹروں کے پاس جواب نہیں ہے۔ ۲۰۱۹ء میں، کورٹنی، ایک امریکی ماں نے پایا کہ اس کے چار سالہ بیٹے ایلکس کی نشوونما رک گئی ہے۔ وہ مسلسل درد میں تھا۔ کورٹنی نے امریکہ کے بہترین ۱۷؍ اسپتالوں کا دورہ کیا لیکن بیٹے کا علاج نہیں مل سکا۔ آخرکار ۲۰۲۳ء میں چیٹ جی پی ٹی ۴؍ لانچ ہونے کے چند ماہ بعد انہوں نے اس پر تمام تفصیلی میڈیکل نوٹ اپ لوڈ کر دیئے۔ چند سیکنڈز میں اے آئی نے تجویز کیا کہ ایلکس کی علامات ٹیتھرڈ کورڈ سنڈروم (ٹی سی ایس) سے مطابقت رکھتی ہیں، جو ایک اعصابی عارضہ ہے۔ اس میں، ریڑھ کی ہڈی ریڑھ کی نالی سے منسلک ہوتی ہے اور اس کی حرکت کو محدود کرتی ہے، جس سے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے اور شدید درد ہوتا ہے۔ درست تشخیص ہونے کے بعد وہ سرجری کو کامیابی سے انجام دینے کیلئے نیورو سرجن کی تلاش میں تھیں۔ انہیں امید ہے کہ اب ان کا بیٹا ایک عام زندگی گزار سکے گا۔ 
مَیں اس بات سے واقف ہوں کہ کینسر اور الزائمر کی بیماری کی دوائیں تلاش کرنے کیلئے اے آئی کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے۔ آکسفورڈ میں پوسٹ گریجویٹ طالب علم کٹ گالاگھیر نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں کینسر کا پتہ لگانے کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔ وہ ایک ریاضی داں ہے۔ اس نے اپنی زندگی ریاضی کو حیاتیات پر لاگو کرنے کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بہت سے دوسرے محققین کینسر کا علاج تلاش کرنے کیلئے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان اور ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک متعدی بیماریوں اور نایاب بیماریوں کا شکار ہیں۔ 
وہ اے آئی سے چلنے والے ٹولز بنانے کیلئے مل کر کام کر سکتے ہیں جو بیماریوں کی جلد شناخت کرتے ہیں اور ان کے پھیلاؤ کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اس سے لاکھوں جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔ وہ مشترکہ ڈیٹا سینٹرز اور مشترکہ تحقیقی مراکز قائم کر سکتے ہیں۔ ٹورنٹو میں واقع بلیو ڈاٹ کمپنی جیسی سیکڑوں کمپنیوں کی ترقی میں مدد کر سکتے ہیں۔ 
اے آئی کی مدد سے دنیا کی نصف آبادی کیلئے صحتمند مستقبل کی تلاش میں اس کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیمس ہسابیس کی طرف سے تیار کردہ ایک ماڈل ۲۰۰؍ ملین پروٹین ڈھانچے کی پیش گوئی کرنے کے قابل تھا، جس سے ابتدائی مرحلے میں بیماریوں کے علاج کیلئے ادویات تیار کرنا ممکن ہوا۔ ان کی کمپنی کا تیار کردہ ایک جدید ماڈل، جسے ’’الفا فولڈ ۳‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ادویات تیار کرنے میں کمپنیوں کی مدد کرنے میں اور بھی زیادہ موثر ہے۔ خیال رہے کہ اے آئی منشیات کے نئے مالیکیول بنا سکتا ہے، جو قدرتی طور پر موجود نہیں ہیں اُن کیمیکلز کی تشکیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ انفیکشن کو مہلک بھی بنا سکتا ہے۔ ایک بدمعاش سائنسداں اے آئی کا غلط استعمال کرکے پوری دنیا میں تباہی برپا کرسکتا ہے۔ کچھ اے آئی ماڈل انسانی ہدایت کے بغیر از خود بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ جہاں اے آئی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے، وہیں یہ مہلک بیماریاں بھی پیدا کر سکتا ہے۔ 
اے آئی سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ نئے پیتھوجینز پیدا کر سکتا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں شمالی کیرولینا میں ایک کمپنی نے اے آئی کو خطرناک زہریلے مالیکیول تیار کرنے کی ہدایت دی۔ چھ گھنٹے میں اس نے ۴۰؍ ہزار خطرناک مالیکیولز بنائے، جن میں VX اعصابی ایجنٹ کی کیمیائی ساخت بھی شامل ہے، جو تا وقت مہلک ترین کیمیائی ہتھیار ہے۔ اے آئی نے ایسے خطرناک مرکبات بھی بنائے جو پہلے کبھی کرہ ارض پر موجود ہی نہیں تھے۔ کمپنی اس تجربہ کے نتائج کو ایک سائنسی جریدے میں شائع بھی کروایا۔ یہ تجربہ اب سائنسدانوں کے درمیان مشہور ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سائنسداں اے آئی سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اے آئی بیماری کا پتہ لگا سکتا ہے اور ایسی دوائیں ڈھونڈ سکتا ہے جو کوئی ڈاکٹر نہیں کر سکتا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اے آئی ایسے بایولوجیکل ہتھیار تیار کر سکتا ہے جو زمین پر موجود نہیں ہیں۔ اگر ہم دوسرے ممالک کے خلاف دوڑ جیتنے کیلئے اے آئی کیلئے تنگ مسابقتی نقطہ نظر اپناتے ہیں تو اے آئی ایسے ہتھیاروں کو جنم دے گا جو تمام ممالک کو نقصان پہنچائیں گے۔ ۲؍ سرفہرست کمپنیوں، اوپن اے آئی اور اینتھروپک، نے ۲۰۲۵ء کے اوائل میں سختی سے اشارہ کیا تھا کہ ان کے نئے ماڈل نوسیکھیوں کو بایولوجیکل خطرات پیدا کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ عالمی سطح پر تعاون کیا جائے تاکہ اے آئی کو صحت مند طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ 
اہم نوٹ: راقم نے اے آئی کی مدد سے زیر نظر مضمون مراٹھی زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ اے آئی نے ان تمام جملوں کا لہجہ اور متن بدل دیا جہاں اسے خطرہ بتایا گیا ہے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اے آئی دھوکہ دینے میں کتنا خطرناک ہے۔ 
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK