عید بہاراں کی پرکیف فضائیں نغمہ سرا ہیں۔ ہر سمت مسرتوں کے غنچے کھل اٹھے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 16, 2024, 10:43 AM IST | Muhammad Kaleem Raza Subhani | Mumbai
عید بہاراں کی پرکیف فضائیں نغمہ سرا ہیں۔ ہر سمت مسرتوں کے غنچے کھل اٹھے ہیں۔
عید بہاراں کی پرکیف فضائیں نغمہ سرا ہیں۔ ہر سمت مسرتوں کے غنچے کھل اٹھے ہیں۔ کائناتِ محبت میں کہیں شاہ خوباں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جلوہ تبسم کا تذکرہ ہورہا ہے تو کہیں قدسی لبوں کی استقامت کا۔ کہیں نگاہ ناز کے عروج و ارتقا کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں تو کہیں رخ والضحی کے، کہیں صبح نور کے تذکار کی بزمیں سج رہی ہیں تو کہیں حسن و جمال کے تذکار کی۔ قبلہ انوار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکار حمیدہ کی انجمن میں کائنات کی ہر سمت سے عشق و محبت کے نذرانے نثار کیے جارہے ہیں ۔ حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ دربار رسالت میں یوں زمزمہ سنج ہوئے:
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
وہ سعید ساعتیں جن کا ان گنت صدیوں سے انتظار ہورہا تھا، گردش ماہ و سال کی کروٹیں لیتے لیتے اس لمحہ ٔ منتظر میں سمٹ آئیں جس میں خالق کائنات کے بہترین شاہکار کو منصہ عالم پر اپنی ضیا پاشیوں سے جلوہ گر ہونا تھا۔ جس ساعت سعید میں حضرات آدم و نوح و موسیٰ و ابراہیم و عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہم الصلاۃ والتسلیم کی بعثت کا مقصد تمام و کمال کوپہنچنے جارہا ہے۔ قربان جائیے اُس لمحۂ منتظر کے!
مصطفوی ؐانقلاب کی صبح درخشاں
بہار کا مہینہ تھا۔ کائنات میں شادمانی کا پرکیف سماں تھا۔ بارہویں تاریخ تھی۔ دو شنبہ کا دن تھا۔ صبح صادق کی ضیا بار سہانی گھڑی تھی۔ جب حجرہ مخدومۂ کائنات میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا ایسا نور چمکا جس سے کائنات میں عظمتوں کے چراغ روشن ہوگئے۔ اس ساعت سعید میں سارا گھر بقعہ نور بن گیا، انوار و تجلیات نے نہ صرف اس مکان کو بلکہ کائنات کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا اور ایک ایک شے چاندنی میں نہا گئی۔ ظہور قدسی پر غیر معمولی خوشی کا الٰہی اہتمام کیا گیا۔ بہار میں جان بہار کی آمد ہوئی۔ آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دئیے گئے۔ پورا سال خواتین کو لڑکے عطا ہوئے تاکہ بچیاں زندہ در گور ہونے سے دائمی راحت پائیں ۔ ظہورِ قدسی کے وقت بزم کون و مکاں کی ایسی آرائش و زیبائش ہوئی گویا کہ کائنات میں نور کا سیلاب آگیا۔ ستارے قمقمے بنے اور پرچم لہرائے گئے۔ شہد سے میٹھا فرحت بخش مشروب مخدومہ کائنات کو دیا گیا۔ جن کی انسیت کیلئے حضرت آسیہ و مریم ؓ کو بھیجا گیا ان کی قیادت میں حوران بہشت حاضر خدمت ہوئیں۔ پرندوں نے استقبال کرتے ہوئے خوشی منائی۔ نمود صبح انقلاب ہوئی تو خانۂ کعبہ کے بت اوندھے گر گئے۔ شیاطین پر آسمان کی راہیں مسدود ہوگئیں۔ آل ساسان کے جابر حکمرانوں کے تخت الٹ گئے۔ کسریٰ کے محل میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ آتش کدۂ فارس کی ہزار سالہ آگ بجھ گئی۔ یہی مصطفوی انقلاب کی صبح درخشاں تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے یوم کامل میں بدل گئی۔
انسانیت کا نصیبہ بیدار ہوگیا
جن کی آمد سے مرجھائی کلیاں مسکرانے لگی۔ طیور خوش نوا ان کی مدحت میں زمزمہ سنج ہوئے۔ انسانیت کا نصیبہ بیدار ہوگیا۔ جن کی آمد پر کائنات رنگ و بو میں ذرہ ذرہ فرحت و انبساط کا جشن منا رہا تھا آج بھی منارہا ہے اور بزبان رضا
حشر تک ڈالیں گے پیدائش ِمولیٰ کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
خاک ہوجائیں عَدُو جل کر مگر ہم تو رؔضا
دم میں جب تک دم ہےذکراُن کا سناتےجائیں گے