فیض الحسن حسرت ؔ موہانی نے جس کارِ عظیم کا بیڑا اٹھایا اسے پورا کر دیا اور اس درجہ کمال کو پہنچا دیا کہ مقتدین اور متاخرین سب کی روحیں تحسین کر رہی ہیں۔ انہدام کے ساتھ تعمیر بھی ہو، سادگی کے ساتھ رنگ آمیزی، ماضی کی عزت، حال پر شفقت، مستقبل کی فکر، اصلی مصلحوں کا یہی طرز فکر و عمل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ مولانا حسرت موہانی کی ایک یادگار تصویر۔ تصویر: آئی این این
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے = احرار کبھی ترکِ ر وایت نہ کریں گے
فیض الحسن حسرت ؔ موہانی نے جس کارِ عظیم کا بیڑا اٹھایا اسے پورا کر دیا اور اس درجہ کمال کو پہنچا دیا کہ مقتدین اور متاخرین سب کی روحیں تحسین کر رہی ہیں۔ انہدام کے ساتھ تعمیر بھی ہو، سادگی کے ساتھ رنگ آمیزی، ماضی کی عزت، حال پر شفقت، مستقبل کی فکر، اصلی مصلحوں کا یہی طرز فکر و عمل ہوتا ہے۔
۱۹۳۵ءمیں مولانا حسرت موہانی ہی کی کوششوں سے پہلی آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کانپور میں ہوئی تھی جس کے صدر وہ خود تھے۔ انہوں نے اغراض و مقاصد پہ روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:کمیونزم ایک کاشتکاروں اور مزدوروں کی تحریک ہے، اس تحریک کے اصول اور اغراض و مقاصد سے جمہورِ اہل ہند عموماً اتفاق کرتے ہیں ۔ بعض صریح غلط فہمیوں کی بنا پر کمیونزم کے نام سے بعض کمزور اور وہمی طبیعت کے لوگ گھبراتے ہیں مثلاً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم اور خوں ریزی لازم و ملزوم ہیں حالانکہ اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہم عدم تشدد کو ضرورت و مصلحت کی بنا پر جائز سمجھتے ہیں ۔ ان کی ہفت رنگ اور ہشت پہلو شخصیت کے سارے پہلو تہہ دار اور دلفریب ہیں ۔
شیخ ممتاز حسین جونپوری، طبیعت کی ـطرفہ تماشگی کا راز بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے ایک بار حسرت ؔمرحوم سے پوچھا کہ اے بھائی !ایسی مصیبت میں پسنے والے گیہوں کے ساتھ تخیل کو سنوارنے کا آپ کیسے اہتمام کرتے تھے ؟‘‘ فرمایاکہ، شاعری نے غم غلط کرنے اور صبر و شکر کی عادت ڈالنے اور اخلاق کو سنوارنے میں میرا ساتھ دیا، اگر شاعر نہ ہوتا، گانا تو آتا نہ تھا، جیل میں گیہوں پیسنا دو بھر ہو جا تا۔ گیہوں تو خود بخود پستا چلا جاتا تھا اور بعض لوگ شعر سننے کے لالچ میں کبھی کبھی میرے حصے کا گیہوں پِسا دیا کرتے تھے۔
ایسے افراد شاذو نادر جنم لیتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے خود تاریخ بن جائیں۔ حق گوئی ان کی ذات کا جز تھی۔ انگریز دشمنی میں اپنے حریفوں سے بہت آگے اور حلیفوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ قلندروں کو سیاست اور عہدے راس نہیں آتے۔ یہ (حسرتؔ) وہ ساز تھا جس میں ہر لے گم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ آواز تھی جس کے سامنے ہر صدا بے صوت تھی۔ حسرتؔ کا کردار تو یہ تھا کہ بحرِ بے کراں میں شناوری دکھاتا یہ پروا کئے بغیر کہ دنیا کیا کہے گی، ایوان ِحکومت میں، دربارِ شاہی میں، اجلاس میں، پنڈال میں، سیاسی جماعتوں کے شامیانے میں، دوستوں کے جھنڈ میں۔ رئیس الاحرار قلندر کی آنکھ اور صوفی کا دل رکھتے تھے۔ نورالحسن نقوی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں حسرتؔ موہانی کی زندگی فقر و استغنا اور ایثار و خلوص کامجموعہ تھی، رسالہ اردوئے معلی بند کرنا پڑا، پریس ضبط ہو گیا، ان کے مضامین کے مسودات کو ان کی آنکھوں کے سامنے جلا دیا گیا۔ علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے تبھی تحریک آزادی سے وابستہ ہوئے تو کالج کی حدود میں داخلہ ممنوع ہو گیا۔ سودیشی اسٹور کھولا۔ کالج کے طلبہ اور اسٹاف نےاس کا بائیکاٹ کیا۔ ان کو ہمیشہ سزائے قید ِ با مشقت ملی۔ ان کی اہلیہ نشاط النسا بیگم نے شریک ِ حیات ہونے کا پورا فرض ادا کیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد کسی سے مدد لینے کے بجائے خود سو دیشی اسٹور چلایا۔ نشاط النسا بیگم نے ایک آسودہ گھرانےمیں پرورش پائی تھی ان کے والد وکیل تھے لیکن انہوں نے اپنے شوہر کی تڑپ اور جد وجہد میں اپنا انمٹ کردار ادا کیا اور ثابت کیا کہ وقت پڑنے پر آنچل کو پرچم کیسے بنایا جاتا ہے۔ حسرت جب جیل میں تھے ان کے بیٹے کا انتقال ہوا جس کی اطلاع بھی انہیں نہیں دی گئی۔ نہ مشاعرہ پڑھنے کا کوئی محنتانہ لیا نہ علی گڑھ یونیورسٹی میں بطور ممتحن اپنی خدمات دینے کے اخراجات لئے اور نہ مرکزی وزیر بننے کے بعد حکومت سے کوئی تنخواہ یا سفر اور رہائش کے اخراجات۔ ریل کے تیسرے درجے یا انجن میں سفر کرتے۔ دہلی آتے تو مسجد میں قیام کرتے۔ یہ حسرتؔ ہی تھے جنہوں نے پہلی بار مکمل آزادی کا نعرہ لگایا۔ آزادی ملنے کے بعد لوگوں نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا لیکن درویش کو مالی منفعت کا کیا لالچ ! ایک سوال یہ بھی اہم ہےکہ آزادی کے وقت بھارت کی آبادی کا تعلیمی تناسب بہت کم تھا لیکن انہوں نے حسرت کو ممبر آف پارلیمنٹ چنا تھا اور وہ آئین ساز کونسل کے رکن بھی تھے۔ انہیں کسی ایکس وائے زیڈ سیکورٹی کی ضرورت نہیں تھی نہ بنگلے اور گاڑی کے الاٹمنٹ اور کینٹین کے مینو سے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے پیروں میں وحشت کے گھنگرو بندھے ہیں۔ دل کو درد کے لبادے میں ڈھانپ کر عشق لا حاصل کی طلب میں پا بجولاں رہے جس سے ان کے اندر ہمہ وقت ایک رقصِ طاؤسی برپا رہا جس کے سارے رنگ ان کی غزلوں میں نمایاں ہیں۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک سا بلور کی طرح یا کسی منشور کی مانند تھا جس سے روشنی ٹکرا کر سات رنگوں میں منعکس ہو جاتی ہے اور تا ابد رہنمائی کا کا م کرتی۔ یہ عشق کہانیوں کا ہے نہ ہی اسے فلم کا پردہ پیش کر سکے گا، یہ تو حقیقی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں جو آج بھی طوفانوں سے کہتی ہیں کہ آؤ تو سہی! یہ عشق مقصد کی لگن ہے، یہ لگن جتنی شدید ہوگی اتنا ہی آدمی زیادہ پختگی کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ عشق کے اس جذبے کو روشن رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان جمود کا شکار نہ ہو اور ارتقاء کے نت نئے مقاصد تخلیق کرتا رہے اور نئی نئی راہوں کی طرف بڑھتا رہے یہاں تک کہ اس مرتبے تک پہنچے جو انسان کا کامل مرتبہ ہے۔ مختصراً ہم یوں کہہ سکتے ہیں خود شناسی، خود اعتمادی اور اپنی صلا حیتوں کا ایسا شعور کہ کائنات کی ہر چیز اس کے سامنے سر نگوں ہوتی ہے۔ یہ وہ مے ہے جس کا پیمانہ ادب اور محبت ہے، ادب خدا کی محبت مخلوق سے بلاشبہ حسرت موہانی دونوں حالتوں میں محب صادق رہے۔
حسرت کو روایتی طور پر یاد رکھنے کی بجائے اس تصور کو زندہ کریں کہ یہ زمین ان ہی بیجوں کیلئے زرخیز ہے جو محبت کا پیڑ پروان چڑھا سکیں جس کے سائے میں ہم ٹھنڈک پروستے رہیں ۔ حسرتؔ ایسے سمندر کی طرح تھے جو جذب کرنا جانتا ہے کہ اپنی معنوی جہت سے لامتناہی ہونے کے باوجود ایک ہی وقت میں اس کا پھیلاؤ ناپا نہ جاسکے اور اس کا سمٹاؤ دیکھا نہ جاسکے کیونکہ انقلابی کردار علم اور شعور کی صحت کے بغیر ظلم ہے اور اس کے ساتھ سلامتی ہے۔ سامنے کی بات آنکھ دیکھتی ہے اور آنکھ کے پیچھے کی بات احساس دیکھتا ہے تب احساس کے آئینے مجلیٰ ہوتے ہیں جن پر عکس اترتے رہتے ہیں ۔ یہ قیمتی انسان جو تہذیب کے نمائندہ اور تاریخ کا عطر ہوں انہیں کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔
شیرینی نسیم ہے سوزو گداز ِ میرؔ حسرت ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام