سنیتا ولیمز کی زمین پر واپسی ایک بار پھر ٹل گئی ہے۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ فروری میں لوَٹ آئینگی۔ اب کہا جارہا ہے کہ واپسی مارچ میں ممکن ہوگی۔
EPAPER
Updated: December 19, 2024, 12:27 PM IST | Mumbai
سنیتا ولیمز کی زمین پر واپسی ایک بار پھر ٹل گئی ہے۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ فروری میں لوَٹ آئینگی۔ اب کہا جارہا ہے کہ واپسی مارچ میں ممکن ہوگی۔
سنیتا ولیمز کی زمین پر واپسی ایک بار پھر ٹل گئی ہے۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ فروری میں لوَٹ آئینگی۔ اب کہا جارہا ہے کہ واپسی مارچ میں ممکن ہوگی۔ خلائی اُمور میں اتنے تکنیکی اُمور شامل ہیں کہ ماہرین ہی ان کے رموز و نکات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کی وضاحت کرسکتے ہیں مگر ہم جیسے لوگوں کیلئے، جن کی تکنیکی معلومات محدود تر ہے، یہ حقیقت پریشان کن ہے کہ چار نفری مشن کے دیگر ساتھیوں کی رفاقت میں جس سنیتا ولیمز نے صرف ۸؍ دن کیلئے خلاء کا رُخ کیا تھا، وہ اپنے خلائی اسٹیشن میں عنقریب ۲۰۰؍ دِن پورے کرلیں گی۔ ہم آپ اپنے گھر کی چھت پر بھی اتنے دن نہیں گزار سکتے جتنے دن انہوں نے خلاء میں گزار لئے ہیں۔ اس مشن پر روانہ خلاء باز اب ۲۰۰؍ دن مکمل کرنے جارہے ہیں اس کے باوجود اُن کے چہروں پر نہ تو تشویش اور بے چینی کے آثار ہیں نہ ہی یہ فکر لاحق ہے کہ زمین پر لوَٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ سنیتا تو پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ خلاء اُن کی پسندیدہ جگہ ہے۔
یہی اُن کے جذبۂ تلاش و تحقیق اور خلائی ترقیات کی سب سے بڑی دلیل اور سند ہے۔ سنیتا کی حالیہ تصاویر دیکھئے جو اپنے خلائی جہاز میں سینٹا کلاز کی لال رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ۱۹؍ ستمبر کو اُنہو ں نے اپنی سالگرہ منائی۔ اسی دوران ایک امریکی اسکول کے طلبہ سے بات چیت کی اور اُن کے سوالوں کے جواب دیئے۔ اس سے بھی زیادہ متاثر کرنے والی بات یہ ہے کہ ۸؍ دن کا لائحہ عمل لے کر خلاء میں جانے والا یہ عملہ جب ۸؍ سے کافی زیادہ دن وہاں رُکنے پر مجبور ہوا تب بھی اُس کے پاس کرنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ ایسا نہیں کہ کام تو ہوگیا اب واپسی ہو اور اس تعلق سے اتنی بے چینی پیدا ہوجائے کہ کچھ اور کرنے پر طبیعت آمادہ ہی نہ ہو۔ جی نہیں، وہ تحقیقی اُمور میں ہنوز سرگرداں ہیں اور بہت ممکن ہے کہ توسیع ِ قیام کے سبب ایسی معلومات اُن کے ہاتھ لگ جائے جو زمین کے مسائل کے حل میں معاون اور انسانیت کی فلاح میں سودمند ثابت ہو۔
یاد رہے کہ وہ زمین سے ۴۰۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جہاں کشش ثقل تقریباً صفر ہے۔ ایسے ماحول میں تسلسل کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہڈیوں کی دبازت کم ہونے لگتی ہے، عضلات سکڑنے لگتے ہیں اور اعضائے رئیسہ میں منفی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سنیتا ولیمز کو تقریباً صفر کشش ثقل کا تجربہ ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے دو مرتبہ خلائی سفر کرچکی ہیں مگر ا س معاملے میں تجربہ غیر معمولی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اس کی روشنی میں مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے، مسئلہ پیدا ہی نہ ہو یہ پیش بندی ممکن نہیں۔ اسی لئے خود کو فٹ رکھنے کی کوشش اُن کا روزانہ کا معمول ہے۔ یہ مشن چونکہ آرام کیلئے خلاء میں نہیں گیا ہے، ا سلئے اسے اہم تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دینی ہیں۔ قیام میں توسیع کی وجہ سے مزید تحقیقات کا منصوبہ بنایا گیا ہوگا کیونکہ اس مشن پر خرچ بھی کم نہیں ہورہا ہے۔ اس کا بیڑا اُٹھانے والا ادارہ ’’ناسا‘‘ توسیع ِ قیام کو بھی سود مند سمجھ رہا ہوگا اور چاہے گا کہ جتنی کامیابی کی اُمید کی گئی تھی اُس سے زیادہ کامیابی حاصل ہوجائے۔ جو بھی ہو، سنیتا اور دیگر خلاء بازوں کی ہمت اور حوصلے کی داد دینی چاہئے کہ وہ جسمانی وزن میں تخفیف سے بچنے اور خود کو چاق چوبند رکھنے کیلئے بھی کوشاں ہیں اور خلائی تحقیق کو نئی بلندی عطا کرنے کیلئے بھی مستعد ہیں۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر خلاء نوردی کے اس جوش و جذبہ نے اُنہیں ایک دن میں سولہ طلوع و غروب ِ آفتاب دیکھنے کا اعزاز بخشا ہے۔