ڈاکٹر ابو طالب انصاری پیشے سے ڈاکٹر ہیں لیکن آپ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں۔ شہر میں کوئی بھی ادبی، ثقافتی، سماجی، تعلیمی اور طبی تقریب ہو، منتظمین کے ذہن میں بطور مہمان جو چند نام آتے ہیں، ان میں آپ کا نام بھی شامل ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: February 02, 2025, 4:01 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
ڈاکٹر ابو طالب انصاری پیشے سے ڈاکٹر ہیں لیکن آپ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں۔ شہر میں کوئی بھی ادبی، ثقافتی، سماجی، تعلیمی اور طبی تقریب ہو، منتظمین کے ذہن میں بطور مہمان جو چند نام آتے ہیں، ان میں آپ کا نام بھی شامل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ابو طالب انصاری
(کامیاب ڈاکٹر اور کامیاب مصنف)
ڈاکٹر ابو طالب انصاری پیشے سے ڈاکٹر ہیں لیکن آپ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک ہیں۔ شہر میں کوئی بھی ادبی، ثقافتی، سماجی، تعلیمی اور طبی تقریب ہو، منتظمین کے ذہن میں بطور مہمان جو چند نام آتے ہیں، ان میں آپ کا نام بھی شامل ہوتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میونسپل پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ ہائی اسکول کی تعلیم رئیس ہائی اسکول سے اور جونیئر کالج کی تعلیم بی این این کالج سے مکمل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے آپ نے ’سیفیہ حمیدیہ یونانی طبیہ کالج‘ برہان پور میں داخلہ لیا اور ۱۹۸۴ء میں بی یو ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک آپ نے بھیونڈی کے معروف ’ الرازی اسپتال‘ میں طبی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد اپنا دواخانہ کھولا، جسے امسال ۲۵؍ سال مکمل ہوگئے ہیں۔
طبی میدان میں آپ کا اہم کارنامہ ۲۳؍ سال تک مسلسل میڈیکل چیک اپ کیمپ کاانعقاد ہے۔ ان کیمپوں میں مفت چیک اَپ اور دواؤں کے ساتھ ہی مفت چشموں کی فراہمی بھی رہی ہے۔ اس دوران ۵؍ بڑے آپریشن بھی مفت کرائے گئے ہیں۔ اسی طرح کورونا کی بیماری کے دنوں میں جب بڑے بڑے اسپتال اوردواخانے بند ہوچکے تھے اور جو کھلے تھے، وہاں پر ایک طرح سے لوٹ مار مچی ہوئی تھی، آپ نے مسلسل طبی خدمات انجام دیں۔ اس کی وجہ سے آپ خود بھی کورونا سے متاثر ہو گئے تھے۔ کئی دنوں تک اسپتال میں رہنے اور لاکھوں خرچ کرنے کے بعد جب آپ روبہ صحت ہوکر گھر پہنچے تو ایک بار پھر اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں لگ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ موت و زیست کی ڈور تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ہمارا کام اپنے فرائض کی تکمیل ہے۔
ایک ڈاکٹر کے ساتھ ہی آپ کی پہچان ایک اچھے قلمکار کے طورپر بھی ہے۔ اب تک آپ کی ۱۴؍ کتابیں شائع ہوکر عوام و خواص میں مقبول ہوچکی ہیں جبکہ ۱۵؍ویں کتاب ’امروز۔ ۲‘بھی مکمل ہے اور بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ ان میں کچھ کتابیں طبی ہیں تو کچھ سماجی، ادبی اور تعلیمی موضوعات پر ہیں۔ آپ نے پہلی کہانی بچوں کیلئے لکھی تھی جو ’پولیس انسپکٹر‘ کے عنوان سے روزنامہ انقلاب میں اُس وقت شائع ہوئی تھی جب آپ ایس ایس سی میں تھے۔ اس کے بعد ۲؍ سال تک آپ نے کئی کہانیاں لکھیں جو انقلاب اور اردو ٹائمز کے صفحات کی زینت بنیں۔ میڈیکل کالج میں داخلہ لینےاور طبی تعلیم کی تکمیل کے بعد کہانیاں اورمضامین لکھنے کا سلسلہ کئی سال تک موقوف رہا۔ آپ کی پہلی تصنیف ’اجالے ماضی کے‘ تھی جو ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں عظیم مسلم شخصیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آپ کی دو کتابوں پر اَب تک ۴؍ ایوارڈ مل چکے ہیں۔ پہلی کتاب ’امروز‘ پر مہاراشٹر اُردو ساہتیہ اکیڈمی سے انعام ملا تھا جبکہ دوسری کتاب ’آنکھیں ‘ پر مہاراشٹر، مغربی بنگال اور اترپردیش کی اُردو اکیڈمیوں سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آپ سائنس، امنگ، بچوں کی دنیا اور اردو دنیا جیسے موقر رسائل و جرائد میں بھی لکھتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ابو طالب کا کہنا ہے کہ وہ جب اپنے مطب میں ہوتے ہیں تو خالص ڈاکٹر ہوتے ہیں لیکن جب مطب سے باہر ہوتے ہیں تو وہ ڈاکٹر کے ساتھ ہی ایک قلمکار بھی ہوتے ہیں۔ آپ ایک اچھے منتظم بھی ہیں اور فی الوقت ڈاکٹروں کی تنظیم ’اینٹی گریٹیڈ میڈیکل پریکٹشنراسوسی ایشن ‘ یعنی ’امپا‘ کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ آپ ایک اچھے کرکٹ کھلاڑی بھی ہیں۔ آپ ۱۷؍ سال تک ’بھیونڈی ڈاکٹرس کرکٹ کلب‘ کے سربراہ رہے ہیں ۔ اب آپ خود تو نہیں کھیلتے لیکن کھلاڑیوں کی سرپرستی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ایڈوکیٹ نیاز مومن
(کامیاب وکیل اور کامیاب گلوکار)
بھیونڈی کیلئے ایڈوکیٹ نیاز مومن کی شخصیت ایک بزرگ اور ایک سرپرست کی طرح ہے۔ آپ ایک نامور قانون داں اور بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی کے ایک فعال رکن کے ساتھ ہی ایک گلوکار کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس قسم کے فنکاروں کیلئے ایک ڈیجیٹل ایپ ’اسٹار میکر‘ ہے جس پر آپ کے گائے ہوئے ۵۶۰۰؍نغموں کی ریکارڈنگ ہے اور اُس پر آپ کے فالوورس کی تعداد ۲۴؍ ہزار سے زائد ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کو ’ٹیلنٹ سنگر‘ کا خطاب ملا ہے۔ یہ خطاب ملنے کے بعد ویب سائٹ پر آپ کا نام سنہری رنگ میں لکھا جانے لگا ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول سے ہوئی ہے۔ ثانوی تعلیم کیلئے رئیس ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ آپ کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا، اسلئے شروع ہی سےاسکالرشپ بھی ملتی رہی۔ ۱۹۷۲ء میں ممبئی کے سڈنہم کالج سے بی کام کرنے کے بعدبھیونڈی کی ایک فرم میں اکاؤنٹنگ کی ملازمت اختیار کرلی اور اسی کے ساتھ تھانے کے ’لاء کالج‘ میں داخلہ بھی لے لیا۔ ۷۵۔ ۱۹۷۴ء میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی۔ اس دوران شہر و بیرون شہر میں کئی اہم مقدمات کی پیروی کی۔
آپ کی پرورش ایک غریب خاندان میں ہوئی ہے، اسلئے غریبوں کا درد بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ وکالت کے پیشے میں آپ کا سابقہ اکثر ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کی انصاف کے دروازے تک محض اسلئے رسائی نہیں ہوپاتی کہ ان کے پاس وکیلوں کاخرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ جب آپ تک پہنچتے ہیں تو اُن کے ذہن میں وکیلوں کے تعلق سے جو مفروضہ قائم ہوتا ہے، وہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ مطمئن ہوکر جاتا ہے۔ آپ کے ذریعہ جیتا گیا ایک مقدمہ بہت مشہور ہے۔ ۱۹۸۶ء میں کمبھار واڑہ پولیس اسٹیشن نے رئیس ہائی اسکول کی بلڈنگ کے پیچھے غیر قانونی طورپر ایک پولیس چوکی بنا لی تھی۔ اس کے خلاف ’سوشیلا کستوری‘ نامی ایک خاتون نےکارپوریشن کیخلاف سول کورٹ میں مقدمہ کیا اور اسے وہاں سے ہٹانے کی اپیل کی۔ یہ معاملہ سیشن کورٹ سے ڈسٹرکٹ کورٹ اورپھر ہائی کورٹ تک گیا لیکن ایڈوکیٹ نیاز مومن کی دلیلوں کے سامنے مقدمہ ٹک نہیں سکا۔ اس طرح ۳۹؍ سال ابھی ۱۸؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو بعد عدالت کی ایما پر وہ پولیس چوکی زمین بوس کی گئی۔
آپ کو آواز کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا ایک شاندار عطیہ ملا ہے۔ آپ بچپن ہی سے مذہبی اورتعلیمی جلسوں میں نظم وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے ’ہندوستانی مسجد‘ سے قرات کی تعلیم بھی حاصل کی ہے، اسلئے اُن دنوں میں جبکہ آپ طالب علم تھے اور آج بھی جبکہ آپ صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں ثقافتی شعبے کے چیئرمین ہیں، اکثر و بیشتر تقاریب کے آغاز میں آپ ہی تلاوت کلام پاک کرتے ہیں۔ جن دنوں آپ رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں طالب علم تھے، آپ کو ’وائس آف ایئر‘ کا ایوارڈ ملا تھا۔ اُس وقت آپ کو انعام کی صورت میں خوب صورت ڈیزائن والےکانچ کے ۲؍ گلاس ملے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کانچ کے گلاس صرف امیروں کے گھروں میں ہوتے تھے، اسلئے اس کی بڑی اہمیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس گلاس کو آپ نے کئی دہائیوں تک سنبھال کر رکھا تھا۔
سڈنہم کالج میں گئے تو آپ کی گلوکاری کی صلاحیت کو مزید چار چاند لگ گئے۔ آپ کو وہاں پر بھرپور مواقع ملے۔ بعد میں شہر کے نامور شاعر محمد عمر شفق(مرحوم) کے ساتھ مشاعروں میں شرکت ہونے لگی جہاں آپ دوسروں کی غزلوں کو اپنی آواز دیا کرتے تھے۔ کورونا کی وبا کے دوران جب عدالتی اور سماجی کام کاج پوری طرح سے ٹھپ پڑ گئے تھے، آپ نے ’اسٹار میکر‘ کو اپنا ہمنوا بنایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس پر چھا گئے۔ آپ کو ’اسٹارمیکر‘ پر اب تک ۶۸؍ ہزار ۲۰۰؍ گفٹ مل چکے ہیں۔
ڈاکٹر نور خان
(کامیاب ڈاکٹر اور کامیاب ڈراما فنکار)
ڈاکٹر نور خان کا نام ذہن میں آتے ہی آپ کا مسکرا تا ہوا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ آپ کو شاید ہی کسی نے کبھی غمزدہ دیکھا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اداکاری آتی ہے۔ آپ اپنا دکھ اور اپنی پریشانی بہت آسانی سے دوسروں سے چھپا لیتے ہیں۔ آپ ایک کامیاب ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ہی ایک کامیاب اداکار بھی ہیں اورزمانہ طالب علمی کے ساتھ ہی آج بھی اس شعبے میں سرگرم ہیں۔ ابھی گزشتہ سال پونے میں ریاستی سطح کے ایک مقابلے میں کئی انعام جیتنے میں کامیاب رہے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول سے ہوئی۔ بعد میں صلاح الدین ایوبی میں داخلہ لیا۔ ایس ایس سی کی تعلیم ’اوم پرکاش اگروال انگلش اسکول‘ اور ایچ ایس سی کی تعلیم ’بی این این کالج‘ سے مکمل کی۔ ۱۹۸۵ء میں اورنگ آباد سے ’بی ایچ ایم ایس‘ کی ڈگری لی اور پریکٹس شروع کی لیکن یہ آپ کی منزل نہیں تھی۔ بعد ازاں آپ نے امریکہ سے ’سائیکولوجیکل کاؤنسلنگ میں ’پی جی ڈپلومہ‘ کیا اور جنسی امراض کے علاج میں مہارت حاصل کی۔ اس شعبے میں ’زندہ ہوں، پر شرمندہ ہوں ‘ کے عنوان سے آپ کے لیکچر کی ایک سیریز کافی مقبول ہوئی۔ اسی درمیان آپ نے ’سائی ہومیو پیتھک میڈیکل کالج‘ میں اعزازی پروفیسر کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ فی الوقت بھیونڈی میں ایک کامیاب پریکٹس کے ساتھ ہی ہر سنیچر کو ناگپاڑہ پر واقع داؤد نرسنگ ہوم اور ہرجمعرات اور سنیچر کو کرلا میں واقع ’ارپن نرسنگ ہوم‘ میں بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اپنی لیڈرشپ کوالیٹی کی وجہ سے جائنٹس گروپ آف بھیونڈی کی صدارت کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں اور آرٹس کریٹیو تھیٹر (ایکٹ) کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔
لیڈر شپ کی یہ کوالیٹی آپ میں بچپن ہی سے تھی، اسلئے آپ، اپنے اساتذہ کے منظور نظرہوا کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسکولی تقاریب میں اسٹیج پر کافی مواقع ملے اور آپ نے اپنے اساتذہ کو کبھی مایوس بھی نہیں کیا۔ آپ چوتھی جماعت میں تھے تواسکول کے ہیڈ ماسٹر معین شیخ کی ہدایت میں ایک ڈراما ’دی پڈنگ کیک‘ میں حصہ لیا تھا۔ چونکہ آواز اچھی اور پاٹ دار تھی، اسلئے اسکولوں میں دعا کیلئے اور مسجد میں اذان کیلئے اکثر آپ ہی کو آگے کیا جاتا تھا۔ نویں جماعت میں تھے تو ایک مشہور ڈراما ’راشن کی لائن‘ کی ہدایت دی تھی اور ایس ایس سی کے دوران ایک ڈراما تخلیق کیا تھا۔ اس کے بعد ’ایکٹ‘ اور پھر ’اپٹا‘ سے وابستہ ہوئے۔ میڈیکل کالج میں پہنچے تو آپ کی ان صلاحیتوں کی خوب پزیرائی ہوئی اور مواقع بھی خوب ملے۔ انہی دنوں آپ نے ’یوتھ فیسٹیول‘ میں ساگر سرحدی کا مقبول ڈراما ’بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا‘ پیش کیا اور انعام جیتا۔ اُس دوران لگاتار تین سال تک بہترین اداکار اور بہترین ہدایت کار کا خطاب حاصل کیا۔
عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ مجیب خان، اقبال نیازی اور عرفان برڈی کی سربراہی میں آپ نے کئی اہم ڈرامے پیش کئے ہیں۔ گزشتہ سال پونے میں منعقدہ ایک ریاستی سطح کے مقابلے میں اپنے ڈاکٹر ساتھیوں کے ہمراہ آپ نے ایک ڈراما پیش کیا تھاجس میں بہترین ڈرامے کے ساتھ ہی بہترین اداکار، بہترین ہدایت کار سمیت کئی ایوارڈ ملے۔ آپ اچھی باتوں کو قبول کرنے اور اسے عام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ آپ ندا فاضلی کے اس شعر کہ ’’مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو‘‘ کے برعکس ساتھ ساتھ چلنے اورمل جل کر کھانے کے حامی ہیں۔
ڈاکٹر رہینفاطمہفیاضاحمدمومن
( کامیاب ڈاکٹر اور کامیاب خطاط)
اس تیز رفتار زندگی میں جبکہ موبائل ہی لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوگیا ہے، لکھنے والوں نے بھی ہاتھ سے لکھنا ترک کردیا ہے۔ ایسے میں جبکہ کاغذ قلم اور دوات کو طاق میں نہیں رکھ دیا گیا بلکہ گھروں سے باہر نکال دیا گیا ہے، ابھی کچھ لوگ ہیں جو ہاتھ سے لکھتے ہیں اور خوش خطی میں یقین رکھتے ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ انہیں میں ایک نام ڈاکٹر رہین فاطمہفیاضاحمدمومن کا بھی ہے۔ آپ ایک کامیاب ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہیں اور نئی نسل کو خوش نویسی کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ آپ اپنا کلینک چلانے کے ساتھ ہی ’سٹی ہاسپٹل‘ اور ’ڈاکٹر کامران ڈے کیئر سینٹر‘ میں بھی اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ آپ صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے فعال معلم فیاض احمد مومن کی دختر نیک اختر ہیں۔ آپ کی ابتدائی تعلیم عبدالشکور پرائمری اسکول سے ہوئی۔ اس کے بعد رابعہ گرلز ہائی اسکول سے دسویں اور’کے ایم ای ایس‘ ہائی اسکول اینڈجونیئر کالج سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔ ولے پارلے (ممبئی) میں واقع ’چندا بین موہن بھائی پٹیل ہومیو پیتھی میڈیکل کالج‘ سے بی ایچ ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کے ساتھ ’’فیلوشپ کورس اِن ہومیوپیتھی ڈرماٹولوجی‘ بھی مکمل کیا۔
رہین فاطمہ بچپن ہی سے بہت ذہین ہیں۔ آپ اسکولی دنوں میں ہر طرح کی تدریسی اور غیر تدریسی بالخصوص تقریری اور تحریری مقابلوں میں دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتی رہی ہیں۔ آپ کو پہلی جماعت ہی سے خوش نویسی سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اسکول میں کتابت کے اصولوں کے تحت حروف تہجی لکھانے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ ہینڈ رائٹنگ اچھی ہوئی تو اسے مزید بہتر کرنے اور کتابت کے اصول و ضوابط سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس کیلئے آپ نے شہر کے مشہور خطاط عظیم غرقاب کی خدمات حاصل کیں اور ان کی مدد سے اپنے فن کو نکھارا اور اب اس فن کو چھوٹے بچوں میں منتقل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس کیلئےآپ اسکولوں کی چھٹیوں کے درمیان اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر طلبہ کو کتابت اور خوش نویسی سکھاتی ہیں۔ اب تک آپ کئی بچوں کو اردو اور انگریزی میں خوش نویسی کیلئے تیار کرچکی ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ ’’بطور ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر، میں ایک انسان کی مجموعی صحت (HOLISTIC HEALTH) میں یقین رکھتیہوں۔ مطلب یہ کہ صرف بیماری کی غیر موجودگی صحت نہیں ہے بلکہ ذہنی اور جسمانی صحت میں توازن اور ہم آہنگی اصل تندرستی ہے۔ جس طرحجسمانی صحت کیلئے ورزش ضروری ہے، اسی طرح ذہنی صحت کو بحال رکھنے کیلئے ہمارا اپنا ایک ذاتی وقت (می ٹائم) ہونا چا ہئے۔ مطلب یہ کہ روزمرہ کی مصروف زندگی میں ہم کچھ وقت اپنے لئے نکالیں جہاں ہم سکون محسوس کریں اور خود سے جُڑ سکیں۔ میرے لئے، وہ وقت خطاطی ہے۔ میں پیشہ ور خطاط نہیں ہوں، بس یہ ایک شوق ہے جو بچپن سے پروان چڑھتا گیا اور یہی میرا ’می ٹائم‘ہے۔ یہ میرے لئے ایک خاص لمحہ ہوتا ہے جو میرے دل و دماغ کو سکون دیتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر زینت ترنم سراج الدین مومن
( کامیاب ڈاکٹر اور کامیاب گلوکار)
کوئی خاتون اگر ڈاکٹر ہوں اور انہیں گلوکاری کا بھی شوق ہو تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اتنا وقت کہاں سے لاتی ہیں ؟ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ آخر انہیں اپنا گھر بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زینت ترنم سراج الدین مومن بذات خود ان تمام سوالوں کا جواب ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ذمہ داری کا احساس مجھے تھکنے نہیں دیتا اور شوق کی تکمیل کیلئے کسی بھی صورت میں وقت نکل ہی جاتا ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ ’’اِس سے پہلے کہ کسی رسم پہ وارے جائیں : آ کسی شوق کی تکمیل میں مارے جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر زینت مومن بھیونڈی کے سرکاری اسپتال ’اندرا گاندھی میموریل ہاسپٹل‘ میں ایمرجنسی میڈیکل سروسیز آفیسر (ای ایم ایس او) کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور گلوکاری کے میدان میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ آپ نے صلاح الدین ایوبی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ا س کے بعد رفیع الدین فقیہ گرلز ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ جونیئر کالج کی تعلیم رئیس ہائی اسکول سے مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے پونےگئیں اور ’زیڈ وی ایم یونانی میڈیکل کالج‘ اعظم کیمپس سے ۲۰۱۴ء میں بی یو ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اپنا کلینک کھولا اور پھر طبی دنیا میں ایمرجنسی خدمات فراہم کرنے سےمتعلق ایک ڈپلومہ کورس کرکے۲۰۱۹ء سے ’آئی جی ایم‘ اسپتال سے وابستہ ہوگئیں۔ کورونا کے دوران آپ کی خدمات کی سرکاری اور غیرسرکاری سطح پرخوب ستائش ہوئی۔
آپ کو گلوکاری ایک طرح سے وراثت میں ملی ہے۔ آپ کے والد بھی گلوکاری کا شوق رکھتے ہیں۔ آپ کی آواز اچھی ہے، اسلئے پہلی جماعت ہی سے آپ کو اسکول میں ’لب پہ آتی ہے، دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھنے کی ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ اسی طرح مختلف مواقع پر نظمیں وغیرہ بھی پڑھنے کیلئے کہا جاتا تھا۔ آپ چوتھی کلاس میں تھیں تو نظم کے ایک مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا تھا۔ ۲۰۰۹ء میں کالج کی تعلیم کے دوران بیسٹ سنگر کا خطاب ملا۔ ڈاکٹر زینت مومن بھیونڈی کے علاوہ ممبئی، شاہ پور، پونے اور شولا پور جیسے شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ طلبہ میں پائی جانے والی جھجھک، ان کے والدین سے زیادہ ان کے اساتذہ دور کرسکتے ہیں۔ n