• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۷۵۰؍ آیات ایمان والوں کو ترغیب و تلقین کرتی ہیں کہ وہ اللہ کی قدرت پر غور کریں

Updated: September 06, 2024, 3:43 PM IST | Dr. Hasan Zalur Rehman | Mumbai

انسان چونکہ غوروفکر کی صلاحیت رکھتا ہے، اسلئے اس کوروئے زمین پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔ قدرت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے اور ایک مہتمم کی حیثیت سے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسکے کسی بھی عمل سے اس توازن میں کوئی خلل نہ پڑے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگرچہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ قابلِ عمل اور اخلاقی اصولوں  کے مطابق ہے،  لیکن پھر بھی جہاں  تک جنگلات کی بربادی،  زمین کے کٹاؤ، پانی کی آلودگی، جنگلی حیات کی تباہی اور مضرصحت گندگی کا تعلق ہے، مسلم ممالک دنیا کے دوسرے صنعتی ممالک سے بہتر نہیں ہیں۔  نامناسب تکنالوجی کی درآمد اور استعمال سے وہ نہ صرف صحت بخش ماحول کے اصولوں  کی خلاف ورزی کرتے ہیں  بلکہ ماحول کو ایسا زہرآلود بنادیتے ہیں  کہ انسانی بقا کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔  بہت سے مسلم ممالک ماحولیاتی خطرات کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ 
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ماحول کے متعلق اسلام کے احکامات سے ناواقف ہیں۔  بہت کم لوگوں  کو معلوم ہے کہ کائنات، فطرت اور قدرتی ماحول کے متعلق قرآنی آیات کی تعداد ان آیات سے زیادہ ہے جن کا تعلق احکامِ ربانی اور مذہبی عقائد سے ہے۔ درحقیقت قرآنی آیات میں سے ۷۵۰؍ آیات (یعنی قرآن کا آٹھواں  حصہ) ایمان والوں  کو ترغیب و تلقین کرتی ہیں کہ وہ اللہ کی قدرت پر غور کریں،  تمام جان داروں  کا ان کے گردونواح کے ماحول سے تعلق کا مطالعہ کریں،  اور اللہ کی تخلیق کے درمیان توازن اور تناسب کو برقرار رکھنے کے لئےعقل و دماغ سے کام لیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے ارضی وسائل،  یعنی زمین،  پانی، ہوا،  معدنیات اور جنگلات انسانوں  کیلئےپیدا کیے ہیں  تاکہ ہم اخلاقی دائرے میں  رہتے ہوئے ان سے مستفید ہوں۔  ہم انہیں اپنے مقاصد اور مفاد کے لئےان تعلیمات کے غلط معانی لیتے ہوئے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔    
انسان کرہ ٔارض کا منتظم
بہت سے مسلمانوں  کو تو ماحول کے تحفظ کے متعلق قرآن کی تاکید پرحیرت ہوگی کہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ کس قدر تقدس اور پاکیزگی کا حامل ہے۔  کائنات کی ہرتخلیق کا کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے تعلق ہے۔  اگر ان میں  سے کوئی بھی چیز متاثر ہوتی ہے تو اس کا اثردوسرے پر بھی پڑتا ہے۔  انسان قدرت کی بہترین تخلیق ہے۔  اس کا قدرت سے رشتہ کسی بھی حال میں  منقطع نہیں  ہوسکتا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نعمتوں پر شکر کرنا رب العالمین کی رضا کا سبب ہے

انسان چونکہ غوروفکر کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لئے اس کوروئے زمین پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔  قدرت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے اور ایک مہتمم کی حیثیت سے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل سے قدرت کے توازن میں  کوئی خلل نہ پڑے۔  روئے زمین پر ناظم کی حیثیت حاصل ہونے کے معنی یہ نہیں  کہ انسان کو ہر ذی روح پر فوقیت حاصل ہے۔  دراصل حاکمیت تو صرف اور صرف اللہ کی ہے۔  ایک ناظم کی حیثیت سے انسان پر اللہ کی تخلیق کے تحفظ کے سلسلے میں  اخلاقی ذمہ داریاں  عائد ہیں۔  لہٰذا انسان کے طرزِ زندگی اورقانونِ قدرت میں  تضاد اور مخاصمت نہیں  بلکہ ہم آہنگی اور مطابقت ہونی چاہئے۔  اسلام میں  قدرت کی تخلیق پر غوروفکر اور اس کی پنہاں  کارکردگی کے سمجھنے کو علم کا بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔  انسان کو اپنے اردگرد قدرت کی تخلیق اور مظہرکائنات میں  اللہ کی قدرتِ کاملہ کا پر تو نظر آسکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو،  جس کو قرآن کی اصطلاح میں  قانونِ قدرت کہا جاسکتا ہے،  بہتر سمجھ سکتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  فرماتا ہے:’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں  اُن کیلئے آسمانوں   اور زمین کی ساخت میں،  رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،  اُن کشتیوں  میں  جو انسان کے نفع کی چیزیں  لئےہوئے دریاؤں  اور سمندروں  میں  چلتی پھرتی ہیں،  بارش کے اُس پانی میں  جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اِسی انتظام کی بدولت) زمین میں  ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے،  ہواؤں  کی گردش میں،  اور اُن بادلوں  میں  جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں،  بے شمار نشانیاں  ہیں۔ ‘‘ (البقرہ ۲:۱۶۴)
پانی کا بنیادی کردار
زمین پر زندگی کی بقا کے سلسلے میں  پانی کی بنیادی اہمیت اور کردار کے متعلق قرآن میں  کئی آیات نازل ہوئی ہیں۔  زمین کی زرخیزی،  میٹھے پانی اور کھارے پانی کے خواص،  دریاؤں،  چشموں  اور زیرزمین آبی ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن،  زندگی کے قیام اوربقا کے سلسلے میں  قدرت کی ہرشے پرپانی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔  قرآن پاک کی ایک آیت میں  اللہ تعالیٰ پانی کے معجزے کا ذکر کرتا ہے۔  جو لوگ روزِ حشر کو نہیں  مانتے اور انھیں  یقین نہیں  ہوتا کہ مرنے کے بعد بھی انسان زندہ ہوگا،  ان کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کس طرح بطن مادر میں  ناقص اور نامکمل بچہ بالیدگی کی منزل طے کرتا ہے اور پھر عالمِ وجود میں  آتا ہے۔  خالق کائنات منکرینِ حشر سے کہتا ہے : اگر تم کو اب بھی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر شبہہ ہے تو دیکھو اور غور کرو:
‘‘  اِن لوگوں  کے لئےبے جان زمین ایک نشانی ہے۔  ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلّہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔  ہم نے اس میں  کھجوروں  اور انگوروں  کے باغ پیدا کئے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے۔ ‘‘ (یٰسین : ۳۳-۳۴)
ماحولیات کی سائنس کا اہم مقصد روئے زمین کو مختلف قسم کی حیاتیات کے لئےموزوں  اور قابلِ رہایش بنانا ہے۔  مختلف اقسام کی جماداتی،  حیوانی اور نباتاتی حیاتیات کے بغیر ہماری زندگی جیسی کہ ابھی ہے،  ممکن نہ ہوتی۔  ہرجاندار کو زمین پر زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق حاصل ہے کیونکہ ان کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں  ایک تناسب اور حُسن ہے۔  اس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  یوں  فرماتا ہے:
 ’’اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا،  اُس کے اندر سے اُس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں  گاڑدیئے سامانِ زیست کے طورپر تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں  کے لئے۔ ‘‘ (النزعات : ۳۰-۳۳)
منتظم ِ ارض کی اخلاقی ذمہ داریاں 
انسان اللہ کی مخلوق ہے اور وہ اس کی دوسری مخلوقات کے ساتھ رہتا ہے۔  ایک دوسرے سے وابستہ اس عالمی نظام میں  جس کا انسان ایک حصہ ہے،  اس کی زندگی کا انحصار دوسرے جان داروں  پرہے۔  کہیں  ایسا نہ ہوکہ انسان اس غلط فہمی کا شکار بنا رہے کہ وہی اللہ کی تخلیق کا بہترین نمونہ ہے،  لہٰذا قرآن انسان کو یاد دلاتا ہے کہ اس سے بھی بڑی تخلیق آسمان اور زمین کی ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ کیا تم لوگوں  کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی جسے اللہ نے بنایا؟‘‘(النازعات: ۲۷ )
انسان کو اس کی حقیقت بتاتے ہوئے کہ وہ کائنات کا محض ایک چھوٹا جز ہے،  دراصل قرآن اس کی کم مائیگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 
انسانی طرزِ زندگی میں  تغیرات سے انسان کے کردار میں  بھی تبدیلیاں  ہوتی ہیں  اور اب انسان منتظم اور محافظ کی بجاے ایک تخریب کار اور غارت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔  اس خطرناک تبدیلی سے انسانی ذہنیت،  تصور اور تخیل میں  بھی ایک بڑا فرق پڑا ہے۔  انسان کے مادی اورروحانی،  دُنیاوی اور دینی تقاضے بدل گئے ہیں۔ 
اگر مادی اور روحانی تبدیلیوں  کے نتیجے میں انسان اپنے ہاتھوں لائی ہوئی تباہ کاریوں سے بالکل بے حس ہوجائے اور پھر بھی اس کی روح رحمت ِ باری کی تمنا کرے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔  ایسا بے حس انسان اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے اور اللہ کی مخلوق کو نیست و نابود کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں  کرے گا۔  اسلام کا نقطۂ نظر اس مسئلے میں  بالکل واضح ہے۔  وہ روح اور جسم میں فرق تسلیم نہیں کرتا۔  اسلام میں روح اور جسم ایک ہی حقیقت،  یعنی انسانی زندگی کے دو رُخ ہیں۔  کوئی بھی مسلمان جس کی زندگی اس عالمِ فانی میں  حرص و ہوس اور جنگ و جدل میں  گزری ہو وہ عالمِ جاوداں  میں  اپنی نجات کی اُمید نہیں  کرسکتا،  اور اگر وہ اللہ کی مخلوق سے نفرت کرتا ہے تو وہ خالقِ کائنات سے بھی محبت نہیں  کرسکتا۔ 
ماحول سےمتعلق اسلامی احکامات سے آگہی
قرآنِ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث،  اسلامی آئین و قوانین کی بنیاد ہیں۔  صدیوں  سے علماے اسلام نے جانوروں  کے حقوق،  پانی،  جنگلات،  جنگلی حیات،  زمین،  چراگاہوں  اور ارضی وسائل کے استعمال اور ان کے انتظام کے لئےقوانین وضع کئے ہیں۔  اسلامی قوانین نے کچھ ایسے حدود متعین کیے ہیں  جہاں  قدرتی وسائل کے تحفظ کے پیش نظر ترقیاتی کام ممنوع قرار دیئے گئے ہیں۔  نہروں،  کنوؤں  اور دریاؤں  کے کنارے کے علاقے حوائج ضروریہ کے لئےممنوع قرار دیئے گئے ہیں  تاکہ پانی کو آلودگی سے بچایا جاسکے۔  جنگلات کو وسعت دینے کے لئےدرختوں  کی کٹائی پر پابندی لگادی گئی ہے۔ چراگاہوں میں جانوروں  کو چرانے کے لئےقوانین بنائے گئے ہیں تاکہ چراگاہیں تباہ و برباد نہ ہوں۔  چراگاہوں، جنگلات اور جنگلی حیاتیات پر کسی کی اجارہ داری روکنے کے لئےانھیں  نجی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سب عوام کی ملکیت ہیں اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کاا نتظام حکومت کے سپرد ہے۔ 
اگر مسلمانوں کو ماحول کے تحفظ کے لئےبیدار کرنا ہے، تو دورِحاضر کےعلماء اسلام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو ان قرآنی احکامات سے آگاہ کریں جن کا تعلق ماحول کی اہمیت اور تحفظ سے ہے۔  انسان کے بنائے ہوئے قوانین صرف وقتی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں مگر قانونِ قدرت ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔  قرآن کہتا ہے:
’’خشکی اور تری میں  فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں  کے اپنے ہاتھوں  کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو اِن کے بعض اعمال کا،  شاید کہ وہ باز آئیں۔ ‘‘ (الروم :۴۱)
مفہوم یہ ہے کہ جب قدرتی وسائل کا غیراخلاقی اور ناجائز استعمال شروع ہوجاتا ہے تو قدرتی ماحول کی تباہ کاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ 
مسلم علما اور سائنسدانوں کیلئےایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایسے قوانین وضع کریں جو موجودہ دور کے ماحولیاتی تقاضوں کو پورا کریں اور جدیدتکنالوجی کے استعمال کے سیلاب، خشک سالی اور غربت کے تدارک، تہذیب و تمدن کے تحفظ اور گرین ہاؤس،  تیزابی بارش اور نیوکلیائی تباہ کاریوں کو روکنے میں مؤثر اور کارگر ہوسکیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK