ایک طرف قومی ذرائع ابلاغ میں سے بیشتر کی چشم پوشی ہے تو دوسری طرف خود عوام کی بے اعتنائی ہے جس کی قیمت جمہوریت کو چکانی پڑتی ہے۔
EPAPER
Updated: April 01, 2024, 1:14 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایک طرف قومی ذرائع ابلاغ میں سے بیشتر کی چشم پوشی ہے تو دوسری طرف خود عوام کی بے اعتنائی ہے جس کی قیمت جمہوریت کو چکانی پڑتی ہے۔
ایک طرف قومی ذرائع ابلاغ میں سے بیشتر کی چشم پوشی ہے تو دوسری طرف خود عوام کی بے اعتنائی ہے جس کی قیمت جمہوریت کو چکانی پڑتی ہے۔ اب تو سوچنا پڑتا ہے کہ جمہوری انداز میں ہونے والا پُرامن احتجاج حکومت کو متوجہ اور فکرمند کرتا بھی ہے یا نہیں۔ طویل عرصہ جاری رہنے والا کسانوں کا احتجاج، روزگار کیلئے نوجوانوں کا احتجاج، اپنے تحفظ کیلئے خاتون پہلوانوں کا احتجاج، بینک ملازمین، اساتذہ اور سرکاری کارکنان کا احتجاج، وغیرہ، حکومت کے طرز عمل سے اگر کچھ ظاہر ہوتا ہے تو صرف یہ کہ اسے احتجاج پسند نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال لداخ میں مشہور سماجی کارکن اور ماحولیاتی رضاکار سونم وانگ چک کا ۲۱؍ روزہ انشن ہے۔ سطح زمین سے ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پررگوں میں خون جما دینے والی ٹھنڈمیں سونم اور اُن کے کئی حامی اَنشن پر بیٹھے رہے۔ ان کے مطالبات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے حکومت کو اختلاف ہو سکتا ہو، اس کے باوجود سونم وانگ چک اور دیگر کو اَنشن پر بیٹھنا پڑا مگر حکومت نے اس کا معمولی نوٹس بھی نہیں لیا۔ مرکزی حکومت کی ایماء پر کوئی مقامی افسربھی سونم وانگ چک اور دیگر مظاہرین سے ملاقات کرنے اور اُن کی بات سننے نہیں گیا۔ ا س سے اگر ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جمہوریت کمزور ہورہی ہے تو کیا غلط ہے؟ جمہوریت نام ہے بات سننے، سمجھنے، سمجھانے، قائل ہونے یا قائل کرنے کا۔ جمہوریت نام ہے اختلافات کے درمیان سے اتفاق رائے کی سبیل نکالنے کا۔ ہماری جمہوریت میں یہ سارے تقاضے فراموش کئے جارہے ہیں۔ لداخ کو کم بجٹ ملتا ہے، زیادہ ملنا چاہئے اس سے مرکزی حکومت کو اختلاف نہیں ہوسکتا، لداخ میں تعلیمی ادارے کم ہیں، روزگار کے مواقع کم ہیں، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کم ہیں، یہاں کا موسم سخت ہوتا ہے اس لئے یہاں کی زیادہ فکر کرنی چاہئے ان باتوں سے بھی حکومت کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اسے احتجاج سے اختلاف ہے۔ لداخ کو ودھان سبھا نہیں ملی جو جموں کشمیر کو ملی ہے، اس کے پیش نظر اگر اہل لداخ حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اُنہیں ڈسٹرکٹ کونسل قائم کرنے کا موقع دیا جائے، جس کی دستور ہند کے چھٹے شیڈول میں گنجائش ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ سونم وانگ چک کے بارے میں قارئین جانتے ہیں کہ عزم و عمل کی چٹان ہے یہ شخص جسے ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے مگر حکومت نے اُن کی ایک نہ سنی۔ اہل لداخ کا احتجاج کسی نہ کسی صورت اب بھی جاری ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، اہل لداخ کی فہرست ِ مطالبات میںایسا کچھ نہیں ہے جو غیر جمہوری ہو۔ حکومت اُن کی سن کر پورے علاقے کو نوازنے کی فراخدلی کا مظاہرہ کرسکتی ہے مگر نہیں کررہی ہے،اسی لئے شک ہوتا ہے کہ شاید کارپوریٹس کو نوازنا ہے اس لئے عوام کا نوازا جانا مشکل ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں بڑی کمپنیاں اور کاروباری ادارے لداخ میں اپنے لئے مواقع تلاش کررہے ہیں۔ کمپنیاں قائم ہونے سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اُصولوںکی خلاف ورزی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، انفراسٹرکچر کیلئے بہت کچھ توڑا جائیگا، بہت کچھ کاٹا جائے گا لہٰذا علاقے کا ایکوسسٹم بدل جانے کا خطرہ پیدا ہوگا اور اہل لداخ یہ نہیں چاہتے۔
کیا حکومت نے وانگ چک کے اَنشن کا اسی لئے نوٹس نہیں لیا کہ جس ’’گھس پیٹھ ‘‘کا خطرہ اہل لداخ کو ہے اہل اقتدار اُسے گھس پیٹھ نہیں ترقی مانتے ہیں؟