• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سسٹم کبھی ٹھیک ہوگا؟

Updated: July 22, 2024, 2:30 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

پوجا کھیڈکر کا تنازع ابھی جاری ہے اور اس میں آئے دن نئے زاویئے پیدا ہورہے ہیں ۔ موصوفہ کی دھاندلی کا سبب، البتہ، اب تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پوجا کھیڈکر کا تنازع ابھی جاری ہے اور اس میں  آئے دن نئے زاویئے پیدا ہورہے ہیں ۔ موصوفہ کی دھاندلی کا سبب، البتہ، اب تک معلوم نہیں  ہوسکا ہے۔ کوئی بھی نیا اور جونیئر افسر، جو ابھی تربیتی دور میں  ہو، اتنی اور ایسی دھاندلی اور جرأت نہیں  کرسکتا اس لئے شبہ ہوتا ہے کہ کوئی سیاسی طاقت ہے جس کا آشیرواد پوجا اور اس کے والد کو حاصل تھا اور ان لوگوں  نے اس آشیرواد کا ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جو بھی ہو، اس کیس کی جتنی پرتیں  کھلیں  گی، خاطی افسر اور اس کے والد حتیٰ کہ والدہ کے بارے میں  اتنا ہی جاننے کو ملے گا مگر یہ طے ہے کہ جتنی باتیں  منظر عام پر آئینگی ان باتوں  سے وہ نظام ہی بے نقاب ہوگا جو بار بار بے نقاب ہوتا ہے مگر بار بار اس کا نقاب سرکا کر ’’درست‘‘ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ کھیل چلتا رہے جس کا جاری رہنا بہت سوں  کیلئے عافیت اور منفعت کا سبب بنا رہتا ہے۔ دفتر شاہی کو سیاست کی سرپرستی اور سیاست کو دفتر شاہی کا تعاون کوئی نئی بات نہیں  ہے۔ حکومت بدلتی ہے تو اقتدار میں  آنے والی پارٹی یا اتحاد کے اعلیٰ لیڈران اپنی پسند کے افسران کو اولیت کیوں  دیتے ہیں ؟ بہت سے افسران کا تبادلہ کیوں  کردیا جاتا ہے؟
 افسران کا بھی یہی معاملہ ہے، بعض پارٹیوں  کی حکومت میں  انہیں  کچھ زیادہ، بعض کی حکومت میں  کچھ کم اور کبھی کبھی کچھ ’’آزادی‘‘ نہیں  ملتی۔ ان میں  کچھ ایسے افسران بھی ہوتے ہیں  جو یہ دیکھے بغیر کہ کس کی حکومت ہے، اپنی منصبی ذمہ داریوں  کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہتے ہیں  مگر انہیں  اکثر اوقات سیاسی آقاؤں کی برہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موضوع کو کئی فلموں  میں  برتا جا چکا ہے اس لئے یہ محتاج تعارف نہیں  ہے۔ ایماندار اور فرض شناس افسران کی پزیرائی سیاست کے منشور میں  کبھی نہیں  رہتی۔ اس کی چند ایسی مثالوں  سے آپ بھی واقف ہیں  جو میڈیا میں  آنے کی وجہ سے مشتہر ہوئیں  ورنہ سیاسی آقا کن افسران سے خوش رہتے ہیں  اور کون سے افسران خود کو عوام کے بجائے سیاسی آقاؤں  کا خادم سمجھتے ہیں  یہ باتیں  کب منظر عام پر آتی ہیں ؟ منظر عام پر آنے والی تفصیل ان افسران کی ہے جو سیاسی آقاؤں  کے نشانے پر رہے اور بار بار ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں  دھکیلے گئے۔ چند مثالیں :
 اس فہرست میں  سب سے زیادہ مشہور نام اشوک کھیمکا کا ہے جن کا تیس سال میں  چھپن مرتبہ تبادلہ کیا گیا۔ اس اعتبار سے ان کا ہر چھ ماہ میں  تبادلہ ہوا ہے۔ تبادلے کا ’’زخم‘‘ پردیپ کوسنی کو بھی بار بار سہنا پڑا جنہیں  چونتیس سال کے دور ملازمت میں  اکہتر مرتبہ تبادلے کا حکم ملا۔ یہ بھی اوسطاً ہر چھ ماہ پر ٹراسفر کئے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب سبکدوش ہوچکے ہیں  یعنی اب انہیں  چاہ کر بھی تبادلے کا خط نہیں  دیا جاسکتا۔ ایک نام ونیت چودھری کا ہے جن کا اکتیس سال میں  باون مرتبہ تبادلہ کیا گیا۔ بہت قریب کا نام مہاراشٹر کے تکارام منڈے کا ہے جو انیس سال کے کریئر میں  بائیس مرتبہ ٹراسفر کئے گئے۔
 کیا تبادلہ ’’معمول کی کارروائی‘‘ ہوتا ہے؟ کیا اچھے افسران کی فعالیت کے پیش نظر دیگر محکموں  میں  ان کی ضرورت کے پیش نظر یہ تبادلے ہوتے ہیں ؟ کیا یہ ایک قسم کی سزا ہے؟ اگر سزا ہے تو اس کے اسباب کیوں  منظر عام پر نہیں  لائے جاتے؟ حقیقت یہ ہے کہ جس سسٹم کی خامیوں  کا فائدہ اٹھا کر پوجا کھیڈکر دھاندلی کرتی رہی، اسے ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK