• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہر مشکل، آزمائش ، ابتلاء اور تکلیف میں صبر ہی آپ ؐ کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے

Updated: October 04, 2024, 4:41 PM IST | Irshadurrehman | Mumbai

گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون’’آپؐ نے ہر مشکل موقع پر جس عزم و استقلال کا مظاہرہ فرمایا وہ آپؐ ہی کے شایانِ شان تھا‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ جس میں ثابت قدمی اور صبر کے کچھ اور پہلو بیان کئے گئے ہیں

One of the difficulties faced by the Holy Prophet was that despite being a member of the tribe that was the custodian of the Kaaba, he was imprisoned in Shu`ab Abi Talib for inviting religion. Photo: INN
آپؐ پر آنے والی مشکلات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کعبہ کا متولی قبیلہ کا فرد ہونے کے باوجود آپؐ کو دین کی دعوت دینے پر شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا۔ تصویر: آئی این این

مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ آزمائش و مصائب میں شدت آ جائے نیز اسلام اور مسلمانوں پر پے درپے حملے ہونے لگیں تو حالات کی اصلاح اور تبدیلی سے مایوسی و ناکامی اس کے دل میں راہ پا جائے۔ راہِ خدا پر چلنے اور لوگوں کو اس طرف بلانے کی جدوجہد جس قدر تکلیف دہ  اور صبر آزما تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی حیثیت سے تو اس کا کامل اِدراک تھا۔ آپؐ نے ہرمشکل موقع پر جس عزم و استقلال اور پامردی و ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپؐ ہی کے  شایانِ شان تھا۔ آپؐ اپنی دعوت کی کامیابی اور اسلام کی سربلندی کا یہ یقین اپنے صحابہؓ کے دلوں میں جاگزیں کرتے تھے۔ مشرق و مغرب تک ان کا پیغام پہنچ جانے کی نوید سناتے تھے۔ مصائب و مشکلات کا جواں مردی اور جرأت مندی سے مقابلہ کرنے کا درس دیتے تھے۔
ایک موقع پر حضرت خبابؓ بن ارت کو جہاں راہِ دعوت کی سنگینی سے آگاہ فرمایا وہاں کامیابی کا یقین بھی دلایا اور فرمایا: ’’تم سے پہلے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لئے  زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر کے اوپر رکھ کر اسے چیر کر دو حصے کردیا جاتا۔ لیکن یہ ظلم بھی اس کو اس کے دین سے ہٹا نہ سکتا تھا۔ لوہے کی کنگھی سے اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچا جاتا لیکن یہ چیز بھی اسے اس کے دین سے ہٹا نہ سکتی تھی۔ اللہ کی قسم! اللہ اس معاملے کو مکمل کر کے چھوڑے گا یہاں تک کہ (ایک وقت آئے گا) سوار، صنعا سے چل کر حضرموت آئے گا تو اسے اللہ کے سوا اور اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم تو جلد بازی میں پڑ گئے ہو۔‘‘
غزوۂ خندق کے روز مسلمانوں کو ہر طرف سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کٹھن اور سخت موقع پر بھی اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو خوشخبری سنائی۔ فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ضرور تم سے اس سختی کو دور کر دے گا جو تم دیکھ رہے ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف کروں گا۔ اور رب العالمین کعبہ کی کنجیاں مجھے دلا دے گا۔ اور کسریٰ اور قیصر کو ہلاک کر دے گا اور پھر تم ان کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔‘‘
دعوت دین کے کارکنان اور قائدین کے لئے  ضروری ہے کہ وہ اس نبویؐ منہج و حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں۔ مایوسی، پست ہمتی، بزدلی اور بددلی پھیلانے کے بجائے دلوں کو اُمید اور یقین سے سرشار کیا جائے۔
عزم و استقلال اور ثابت قدمی
مصائب و مشکلات اور آزمائش کے مراحل میں مومن وسائل کے محدود ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود گھبرایا نہیں کرتا۔ وہ اپنے خدا پر بھروسہ کرکے راہِ خدا میں صبرواستقامت دکھاتا ہے۔ حق کی سربلندی کیلئے  خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ عزم  و استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی کریمؐ کے اسوئہ مبارک میں غزوئہ احد اور غزوئہ حنین کے معرکے اس کی نمایاں مثال ہیں۔
غزوۂ احد میں کفار نے پلٹ کر حملہ کیا تو اس کی شدت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے جواں مرد اور جری مسلمانوں کے لئے بھی میدان میں پائوں جمانا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت رسولؐ  اللہ صرف نو صحابہؓ کے ہمراہ پیچھے تشریف فرما تھے۔ حضوؐر اکرم کی حیاتِ مبارکہ کی آزمائشوں کا یہ نازک ترین موقع تھا کہ اس معرکے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دوصحابی رہ گئے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے آپؐ کے دفاع میں  اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ آزمائش  کے اس نازک ترین موقع پر رسولؐ اللہ پوری ثابت قدمی سے اپنی جگہ پر موجود تھے اور بلند آواز سے لوگوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے، حالانکہ اس وقت آواز دے کر بلانا اپنے بارے میں مشرکین کو خبر دینے کے مترادف تھا۔ لیکن آپؐ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسا کیا اور صحابہؓ کو دوبارہ اپنے گرد جمع کیا اور مسلمان، اللہ کی مدد و نصرت سے  دشمن کو پسپا کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔
کچھ ایسی صورتِ حال غزوۂ حنین میں بھی پیش آئی۔ جونہی مسلمانوں نے طلوعِ فجر سے پہلے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھے دشمن نے اچانک ان پر تیروں کی بارش کر دی۔ پھر یکدم جتھوں کے جتھے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمان سنبھل نہ سکے۔ ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا۔ عالم یہ تھا کہ ابوسفیان نے یہ دیکھ کر کہا کہ اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہیں رکے گی۔ اس موقع پر رسولؐ اللہ نے لوگوں کو پکارا: لوگو! میری طرف آئو۔ میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپؐ  کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے: ’’میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ اس موقع پر بھی آپؐ  کے ساتھ چند ہی صحابہؓ تھے اس کے باوجود  ثبات و استقلال کا عالم دیدنی تھا۔
مشورہ اور رائے لینا
مشاورت اگر شرعی طور پر مطلوب اور لازمی ہے تو مشکل مواقع پر یہ انتہائی لازم ہے۔ مشورے کے ذریعے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ معاملات کا فیصلہ کرنے والی شخصیات اہل عقل و رائے کی چیدہ آرا سے آگاہ ہوں اور کوئی ایسی جامع راے قائم کر سکیں جو انہیںغلطی کا ارتکاب کرنے سے بچائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکم دیا ہے کہ اہل ایمان سے مشورہ کر لیا کرو، حکم ہوا: ’’ اہم معاملے میں اِن سے مشورہ کر لیا کرو۔‘‘ (آل عمران:۱۵۹) جس بات کا حکم قرآنِ مجید میں رسولؐ اللہ کو مخاطب کر کے دیاگیا ہو، یہ کیسے ممکن تھا کہ آپؐ  اس حکم کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حق ادا نہ کریں۔ چنانچہ آپؐ  نے ہرمشکل موقع اور دشوار و کٹھن صورتِ حال میں صحابہؓ سے مشورہ کیا اور بعض مواقع پر لوگوں کی متفقہ رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دی۔ واضح رہے کہ آپؐ کو مشاورت کا حکم اور اختیار صرف انہی اُمور میں دیا گیا تھا جن کے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو یا وہ خالصتاً دنیاوی امور ہوں۔
حسنِ ظن رکھنا
دشمنانِ دین کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ اہل دین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے، شکوک و شبہات ڈالتے، افواہیں پھیلاتے اور اسلام و مسلمان کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں مشہور کرتے۔ یہی بعد کے ادوار میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہوتا ہے۔ دین اور اہل دین کیلئے  یہ لمحات بڑے نازک اور خطرناک ہوتے ہیں۔ احیائے اسلام کی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ہیں جب دشمن اپنے ان عزائم کو مسلمانوں کے خلاف کامیاب بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر دشمن جو طریقہ اختیار کرتا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور رقیق بھی ہو سکتا ہے۔عہد حاضر میں بھی اس کی بے شمار مثالیں ہمارے روزانہ کے مطالعے اور مشاہدے میں آتی ہیں۔ اس معاملے میں دشمن یہاں تک بھی گر سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ذاتیات کو ہدف بنا کر ان کے اخلاق و کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کرے۔ رسولؐ اللہ  اور آپؐ کے اہل خانہ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کسے شک ہو سکتا ہے مگر دشمن یہاں بھی وار کر گیا اور آپؐ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگا دی۔ چونکہ یہ افواہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھی، اس لئے  قرآنِ حکیم نے اس پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اہل ایمان سے کہا کہ جب تمہیں خانۂ نبوت کی پاک دامنی کے بارے میں شک نہیں تھا تو تم نے یہ خبر سنتے ہی فوراً کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے۔
بدگمانی سے اجتناب اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں محتاط گفتگو ہی دراصل کسی اجتماعیت کو مستحکم رکھنے کا باعث ہوتی ہے اور محض افواہوں پر کارروائیاں ہونے لگیں تو بھی یہ شیرازہ متحد نہیں رہ سکتا، اور اگر حقیقی خامیوں کو نظرانداز کیا جاتا رہے تب بھی مخلصین کی رفاقت کو تادیر شکوک و شبہات سے بچائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
صبر کا طویل سفر
بعض لوگ صبر کو ایک منفی رویہ سمجھتے ہیں اور کمزوری و بے بسی اور ذلت و خواری کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ یہ صبر نہیں ہے، بلکہ صبر تو قابل تعریف اوصاف اور مثبت رویوں کا نام ہے۔ صبر تو یہ ہے کہ دشمنانِ دین ہی نہیں بلکہ اپنے بھائی بندوں کی طرف سے بھی ایک داعی جو ذہنی و جسمانی تکلیفیں اٹھائے ان پر بددلی، کم ہمتی اور جزع فزع کا شکار نہ ہو۔ ثابت قدمی اور صبر لازم و ملزوم ہیں۔ اگر داعی صبر سے کام لے گا تو وہ ثابت قدم رہے گا۔ صبر کا دامن جونہی اس کے ہاتھ سے چھوٹے گا اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔
اپنے نفس سے جہاد پر بھی صبر کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں سے جہاد پر بھی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشقتوں اور مصیبتوں کے جھیلنے کیلئے بھی صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ باطل سے ٹکرانے کیلئے بھی صبر ضروری ہے۔ دعوتِ حق کے راستے کی طویل مسافت بھی صبر کی متقاضی ہے۔ اس راہ کے تکلیف دہ نشیب و فراز بھی صبر ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳؍ برس کی داعیانہ زندگی صبر کی ایک دردناک داستان ہے۔ دیکھئے وہ شخصیت جو اپنی قوم سے صادق و امین کا لقب پا چکی ہو اور قوم اس کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہو، وہ جب کائنات کی عظیم ترین صداقت قوم کے سامنے پیش کرے اور قوم اس کو جھٹلا دے تو اس سے بڑی تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے۔
معزز و محترم اور کعبہ کا متولی قبیلہ محض اس بنا پر تین سال کے لئے  شعب ابی طالب میں محصور کر دیا جائے کہ اس کے ایک فرد نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ تین برس تک ان لوگوں کو انسانی ضروریات کی اشیا فراہم نہ ہونے کی جائیں اور انہیں قوتِ لایموت بھی میسر نہ آ سکے۔ کیا اس سے بڑی حق تلفی بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ کعبہ کے حدودِ حرم کے اندر تو جانور بھی محفوظ و مامون ہوں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی آزادانہ عبادت کی اجازت نہ ہو اور ان پر اوجھڑی پھینکی جائے، ان کا گلا دبایا جائے، ان سے بدکلامی کی جائے۔ کیا یہ نہایت تکلیف دہ امر نہیں کہ حقیقی چچا کے بیٹے آپؐ کی بیٹیوں کو اپنے نکاحوں سے خارج کر کے آپؐ کے گھر بھیج دیں اور وجہ صرف آپؐ کی دعوتِ دین ہو۔ کیا دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ نہیں کہ قوم کے معزز و محترم قبیلے کا پاک دامن چشم و چراغ زندگی کا ایک حصہ مکہ میں گزارنے کے بعد اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے اور انتہا یہ ہو کہ دوسری جگہ پہنچ کر بھی اس کو سکون سے نہ رہنے دیا جائے بلکہ مسلسل ۱۰؍ برس جنگوں میں مصروف رکھا جائے۔ طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے اور اس واقعے میں رسولِ رحمتؐ کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ بھی سب کو یاد ہونے چاہئیں کہ ’’نہیں اے اللہ، نہیں! انہیں تباہ نہ کرنا۔ یہ نہیں تو ان کی اولاد میں سے کوئی تیرا نام لیوا ہو گا۔‘‘
آپؐ کی حیات ِ مبارکہ مصیبتوں، تکلیفوں،  ابتلائوں اور آزمائشوں سے لبریز ہے۔ ان تمام لمحات میں صبر آپ کا اوڑھنا بچھونا رہتا ہے اور آپؐ قرآن کے اس بیان کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ:
’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔‘‘(الانعام:۳۴) 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے راستے کی ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے محو سفر رہے اور داعی کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے عزم کو شکستہ نہ ہونے دے اور دعوتِ دین جن قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے ان کو پیش کر کے حمیت فی الدعوۃ کی لاج رکھے۔ یہ بات داعیانِ دین کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہنی چاہئے کہ دعوت اس وقت تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی جب تک اس کی راہ میں روحوں کو گھلانہ دیا جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK