• Fri, 03 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اقلیتی خواتین کی شمولیت کیوں نہیں ؟

Updated: September 21, 2023, 6:36 PM IST | New Delhi

لوک سبھا میں خواتین ریزرویشن بل پر بحث جاری ہے مگر اس میں مسلم خواتین کو شامل کرنے کا بہت جائز مطالبہ سوائے ایس پی، آر جے ڈی اور ایم آئی ایم کسی نے نہیں کیا۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ کہیں اُس بل کا سہرا موجودہ این ڈی اے کی حکومت کے سر نہ بندھ جائے جسے یوپی اے حکومت راجیہ سبھا سے منظور کرواچکی تھی۔

A discussion on the Women`s Reservation Bill was held in a special session of Parliament. Photo: PTI
پارلیمنٹ کے خاص اجلاس میں خواتین ریزرویشن بل پر گفتگو منعقد کی گئی تھی۔ تصویر: پی ٹی آئی

لوک سبھا میں خواتین ریزرویشن بل پر بحث جاری ہے مگر اس میں مسلم خواتین کو شامل کرنے کا بہت جائز مطالبہ سوائے ایس پی، آر جے ڈی اور ایم آئی ایم کسی نے نہیں کیا۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ کہیں اُس بل کا سہرا موجودہ این ڈی اے کی حکومت کے سر نہ بندھ جائے جسے یوپی اے حکومت راجیہ سبھا سے منظور کرواچکی تھی۔ سیاسی نقطۂ نظر سے ایسا کرنا کانگریس کی ضرورت ہوسکتا ہے مگر اقلیتی بالخصوص مسلم ووٹوں پر انحصار کرنے والی یہ پارٹی اتنا تو کرہی سکتی تھی کہ ایس سی، ایس ٹی اور اوبی سی کے تعلق سے کئے جانے والے مطالبہ میں ایک اور (اقلیتوں ) کو بھی شامل کرلیتی! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟ یقیناً ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ کانگریس دس سال بعد بھی اپنے سینئر لیڈر اور سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی کی اُس رپورٹ سے باہر نہیں آرہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اکثریتی طبقہ نے کانگریس کا ساتھ اسلئے چھوڑ دیا کہ اس کی شناخت اقلیت نواز بالخصوص مسلم نواز پارٹی کی بن گئی ہے۔
  ہم اُن مصلحتوں کو مسترد نہیں کرتے جن کے پیش نظر کانگریس اکثر جگہوں پر لفظ ’مسلم‘ کے استعمال سے بھی گریز کرتی ہے مگر تین طبقات کے ریزرویشن کے مطالبہ میں چوتھا طبقہ شامل کرنا خلافِ مصلحت تو نہیں ہو جائیگا! یہاں ’’مسلم قیادت‘‘ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جو مسلم ووٹوں سے فیضیاب ہونے والی دیگر جماعتوں سے پوچھے کہ اس معاملے میں اُن کا موقف کیا ہے۔ 
بہت سے معاملات میں کانگریس کو متہم کیا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کو سیاسی روٹیاں سینکنے کا سنہرا موقع فراہم کردیتی ہے۔ بلاشبہ ماضی میں ایسا ہوا ہے مگر اب ملک کی قدیم پارٹی بہت سوچ سمجھ کر بی جے پی سے مقابلے کا منصوبہ بنانے لگی ہے جس میں یہ نیا عنصر شامل ہوا ہے کہ حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست آر ایس ایس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جن موضوعات پر لب کشائی سے پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں بھی احتیاط کی، اُن پر پارٹی کا موقف بہت واضح، دوٹوک اور بے خوفی کا مظہر ہو۔ یہ غیر معمولی تبدیلی حالیہ دنوں میں کانگریس میں دیکھی گئی۔ اسی حکمت عملی کا تقاضہ ہے کہ کانگریس جہاں آبادی کے دیگر طبقات کی شمولیت کی وکالت کرے وہیں مسلم خواتین کیلئے بھی ریزرویشن کا مطالبہ کرے نیز ’’انڈیا‘‘ میں شامل پارٹیوں کو بھی اس کیلئے آمادہ کرے۔
جہاں تک ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کی شمولیت کا معاملہ ہے، یہ حق بجانب ہے، اس سے اختلاف بے معنی ہوگا مگر مسلم ریزرویشن کیلئے کھل کر بات چیت کیوں نہ ہو۔ حکمراں جماعت سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہزار مخالفت کے باوجود مودی حکومت نے یہ کہہ کر تین طلاق مخالف قانون بنایا کہ اس سے، متاثرہ مسلم خواتین کو ’’راحت‘‘ ملے گی یا اس کے دل میں پسماندہ مسلمانوں کی محبت اچانک پیدا ہوئی ہے تو اگر وہ مسلمانوں کے تئیں مخلص ہے اور اُس کے مذکورہ اقدام نمائشی نہیں ہیں تو ۳۳؍ فیصد ریزرویشن میں مسلم خواتین کو حصہ دار کیوں نہیں بناتی؟
کانگریس اور تمام غیر این ڈی اے پارٹیوں کیلئے موقع ہے۔ اگر ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے ساتھ اقلیتی خواتین کو بھی ریزرویشن میں حصہ دیا گیا تو کم از کم اس راہ سے لوک سبھا اور اسمبلیوں میں اقلیتی تناسب بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK