Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک صدی کا ہندوستان اور مسلمان!

Updated: April 10, 2025, 11:53 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

اس وقت پورے ملک میں اوقاف قانون کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے، ہمارے ساتھ ہمارے برادرِ وطن بھی کھڑے ہیں لیکن اس وقت بھی پسماندہ اور غیر پسماندہ کی سیاست ہو رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون سب کے لئے مضر ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ حالیہ دہائی میں وطن عزیز ہندوستان کی فضا قدرے مکدّر ہوئی ہے اور بالخصوص اقلیت مسلم طبقے میں عدم تحفظ کا خوف گہرا ہوا ہے۔ جمہوری قدریں پامال ہوئی ہیں اور آئین کی خلاف ورزی عام روش اختیار کر گئی ہے۔ اب مقننہ اور عدلیہ کے درمیان بھی رسّہ کشی کا ماحول بڑھنے لگا ہے اور عدلیہ کے حکم ناموں کی دھجیاں بھی بے خوف اڑائی جا رہی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے حکومت وقت کو متنبہ کیا جا رہاہے کہ مختلف ریاستی حکومتیں عدلیہ کے حکم نامے پر عمل نہیں کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود   مرکزی حکومت خاموش ہے۔ بین الاقوامی سطح کی کئی تنظیموں نے اس طرح کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بالخصوص تحفظ حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں نے بھی فکر مندی ظاہرکی ہے اور انصاف پسند شہریوں کی طرف سے اس طرح کے خوف وہراس کے خلاف آواز بھی بلند کی جا رہی ہے۔ مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان انصاف پسندوں کی آواز کو نہ صرف صدا بہ صحرا ثابت کیا جا رہاہے بلکہ ان پرظلم وستم بھی ڈھایا جا رہاہے اور انہیں طرح طرح سے پریشان کیا جا رہاہے
واضح رہےکہ انگریزی حکومت نے ملک میں مذہب کی دیوار کھڑی کرنے اور ’’پھوٹ ڈالو راج کرو‘‘ کی پالیسی بنائی تھی مگر اس وقت ہمارے اکابرین نے اس سازش کو فوراً سمجھ لیا اور اس کا سدِ باب نکالا، قومی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے طرح طرح کے اقدام اٹھائے گئے۔ چونکہ اس وقت غلامی سے نجات پانےکیلئے صف بندی شروع ہو گئی تھی اور حب الوطنی کا چراغ روشن ہونے لگا تھا اس لئے انگریز اپنی سازش میں ناکام ہوئے لیکن اس نے اس ملک میں کچھ ایسی تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جو ایک طرف انگریزی حکومت کے معاون رہے تو دوسری طرف ملک میں فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے کی مہم میں دن رات سرگرداں رہے۔ آج جس تنظیم نے اس ملک کو موجودہ حالات تک پہنچایا ہے وہ اس کے ایک دو دنوں کی کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ایک صدی کے جہد مسلسل کا ثمرہ ہے۔ ہم جسے آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کے طورپر دیکھتے اور سمجھتے ہیں وہ کوئی ایک واحد تنظیم نہیں ہے بلکہ ان کی سیکڑوں ذیلی شاخیں ہیں جو مسلسل ایک صدی سے اپنے اغراض ومقاصد کے تحت خاموشی سے کام کر تے آر ہے ہیں ۔ ان کا میدانِ عمل سیاسی، سماجی، مذہبی، اقتصادی، تعلیمی اورثقافتی رہا ہے اور ہر شعبے میں بڑی ہی سنجیدگی سے اس تنظیم نے کام کیا ہے۔ مثلاً تعلیمی شعبے میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ آج اس تنظیم کے افکار ونظریات کو فروغ دینے والے تعلیمی اداروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسی طرح سیاسی، سماجی، مذہبی اور اقتصادی شعبے میں بھی اس تنظیم نے بڑی سنجیدگی سے کام کیا ہے اور ہندوتواکی جڑیں مضبوط کی ہیں ۔ اس تنظیم نے سب سے بڑا کارنامہ یہ انجام دیا ہے کہ ملک میں سناتنی افکار ونظریات کو مستحکم کیا ہے اور مختلف طبقے کو ہندوتو اکے نام پر متحد کیا ہے۔ بالخصوص دلت اور قبائلی طبقے میں زمینی سطح پر کام کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ دلت اور قبائلی طبقے میں اس تنظیم کی پہنچ مضبوط ہوئی ہے اوراس کے ذہن کو زہر آلود بنایا گیاہے۔ 
لیکن اس کے مقابل ہماری تنظیموں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور مثبت اقدام کی بھی کمی رہی ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ایک صدی پہلے جوہماری تنظیم قائم ہوئی تھی ان کی شاخوں میں اضافہ ہونے کی بات تو دور رہی، خود وہ تنظیم تین تیرہ ہو کر رہ گئی۔ اسلامی شعار کے اسباق پڑھانے والے خود بد عملی کے شکار ہوئے اور ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ گیا۔ سماجی سطح پر بھی کھائیاں بڑھتی چلی گئیں اور ذات برادری کے نام پر سیاست کا طوفان اس قدر بڑھا کہ ایک خدا کو ماننے والے ایک نہیں رہ سکے اور سماجی تانے بانے بھی ٹوٹ کر بکھرتے چلے گئے۔ اشراف و ازلاف کی سیاست نے بھی ہمارے اتحاد کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے اور ہماری اس حقیقت سے کوئی انجان نہیں ہے مثلاً اس وقت پورے ملک میں اوقاف قانون کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے، ہمارے ساتھ ہمارے برادرِ وطن بھی کھڑے ہیں لیکن اس وقت بھی پسماندہ اور غیر پسماندہ کی سیاست ہو رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون سب کے لئے مضر ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اس نازک وقت میں بھی ہماری صفوں میں دراڑیں پیدا ہورہی ہیں اور ہمارے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو اس اوقاف بِل کو قانون کی صورت دینے میں تعاون کرنے والے کئی سیاسی جماعتوں کے خلاف ملک گیر ماحول سازی کر رہے ہیں تو دوسرا طبقہ اس کی حمایت میں کھڑا ہے۔ بہار کے امارت شرعیہ میں جو تنازع ہوا ہے وہ کس قدر افسوسناک ہے۔ 
دراصل ہم کل بھی جذباتی سیاست کے شکار تھے اور آج بھی کم وبیش اسی روش پر چل رہے ہیں۔ جب کہ ہمارے سامنے والوں نے اپنی ٹھوس حکمت عملی کی بدولت اپنی منزل پا لی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کا سلسلہ آج شروع نہیں ہوا ہےبلکہ ہم اس سازش سے نہ صرف بے خبر رہے بلکہ اس مسئلہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ مغل حکمرانوں کی مبینہ زیادتیوں کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ آج جب ہم اپنے گردو نواح پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایک ایسی بھیانک تصویر نظر آتی ہے جو ہمیں ہراساں اور پریشان کرتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ تصویر صرف اور صرف حالیہ دہائی کی دین نہیں ہے بلکہ ایک صدی کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر ہم اب بھی بس حالیہ دہائی کو ہی اس فضا کیلئےکوسنے میں لگے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس ایک صدی کے ہندوستان کا مطالعہ کریں اور اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور مستقبل کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں کہ ہماری آنے والی نسلیں یہ کہہ سکیں کہ ہمارے اسلاف نے ہمیں زندگی جینے کیلئے ایک ہموار راستے دئیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نئی نسل کو ایک ایسی تعمیری فکر ونظر سے بھی آراستہ کریں کہ وہ ملک اور قوم کے لئے مثالی کردار ادا کرسکیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK